باب: زکوٰۃ میں (چاندی سونے کے سوا اور) اسباب کا لینا۔
)
Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: Zakat may be paid in kind (and not in cash))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور طاؤس نے بیان کیا کہ` معاذ ؓنے یمن والوں سے کہا تھا کہ مجھے تم صدقہ میں جو اور جوار کی جگہ سامان و اسباب یعنی خمیصہ (دھاری دار چادریں) یا دوسرے لباس دے سکتے ہو جس میں تمہارے لیے بھی آسانی ہو گی اور مدینہ میں نبی کریم ﷺکے اصحاب کے لیے بھی بہتری ہو گی اور نبی کریم ﷺنے فرمایا تھا کہ خالد نے تو اپنی زرہیں اور ہتھیار اور گھوڑے سب اللہ کے راستے میں وقف کر دئیے ہیں۔ (اس لیے ان کے پاس کوئی ایسی چیز ہی نہیں جس پر زکوٰۃ واجب ہوتی۔ یہ حدیث کا ٹکڑا ہے وہ آئندہ تفصیل سے آئے گی) اور نبی کریم ﷺنے (عید کے دن عورتوں سے) فرمایا کہ صدقہ کرو خواہ تمہیں اپنے زیور ہی کیوں نہ دینے پڑ جائیں تو آپ ﷺنے یہ نہیں فرمایا کہ اسباب کا صدقہ درست نہیں۔ چنانچہ (آپ ﷺکے اس فرمان پر) عورتیں اپنی بالیاں اور ہار ڈالنے لگیں نبی کریم ﷺنے (زکوٰۃ کے لیے) سونے چاندی کی بھی کوئی تخصیص نہیں فرمائی۔
1464.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ نے انھیں زکوٰۃ کے وہ احکام لکھ کر دیے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ پر نازل فرمائے تھے (ان میں یہ بھی تھا) کہ’’جس کسی پر صدقے میں ایک برس کی اونٹنی فرض ہو اور وہ اس کے پاس نہ ہو اور اس کے پاس دو برس کی اونٹنی ہوتو اس میں وہی قبول کرلی جائے اور صدقہ وصول کرنے والا بیس درہم یا دو بکریاں اسے واپس دے۔ اور اگر ایک سالہ اونٹنی زکوٰۃ میں مطلوب ہو اور وہ اس کے پاس نہ ہوبلکہ اس کے پاس دو سال کا نر اونٹ ہوتو وہی قبول کرلیاجائے مگر اس صورت میں اسے کوئی چیز واپس نہ کی جائے۔‘‘
تشریح:
امام بخاری ؒ کے نزدیک سونے چاندی کے بجائے دیگر مال و اسباب کا بطور زکاۃ لینا دینا جائز ہے۔ اسے بایں طور ثابت کیا ہے کہ مذکورہ حدیث میں ایک جانور کے بدلے دوسرا جانور زکاۃ میں دینا ثابت ہے اور زکاۃ وصول کرنے والے کی طرف سے زیادہ نفیس اونٹنی زکاۃ کے طور پر لینا ثابت ہے جو واجب سے زیادہ ہے اور اس کے بدلے درہم اور بکریاں واپس کرنا بھی ثابت ہے تو سامان وغیرہ لینے میں کیا حرج ہے؟ لیکن امام بخاری ؒ کی اس دلیل میں اتنا وزن نہیں ہے، کیونکہ اگر زکاۃ میں قیمت وغیرہ کا لحاظ ہوتا تو مختلف جانوروں کی عمروں کا تعین بے سود ٹھہرتا ہے۔ جب شارع ؑ نے جانوروں کی عمریں متعین کر دی ہیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ انہی کا ادا کرنا ضروری ہے، ان کے بجائے قیمت ادا کرنا صحیح نہیں۔ مذکورہ حدیث میں ایک استثنائی صورت بوقت مجبوری اختیار کی گئی ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1411
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1448
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1448
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1448
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ نقدین (سونا چاندی) کے علاوہ دوسرا مال و اسباب بھی زکاۃ میں لینا جائز ہے۔ اگر کسی پر نصاب کی کوئی چیز واجب ہو جائے تو اس مقدار کی قیمت بھی ادا کر سکتا ہے، اس جنس سے زکاۃ ادا کرنا ضروری نہیں، چنانچہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے اہل یمن سے کہا تھا کہ وہ غلہ کے بجائے کپڑوں کی صورت میں زکاۃ دے دیں کیونکہ مدینہ منورہ میں محتاج لوگوں کو غلہ کے بجائے کپڑوں کی زیادہ ضرورت تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ زکاۃ میں دوسری اشیاء کا تبادلہ جائز ہے۔ اسی طرح زکاۃ وصول کرنے والوں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے زکاۃ دینے کا مطالبہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ تم خالد پر زیادتی کرتے ہو۔ اس نے تو اپنا تمام سامان اللہ کی راہ میں وقف کر دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ سامان وقف نہ کرتے تو اس سے زکاۃ ادا کرتے۔ وهو المقصود۔ نیز آپ نے عید کے موقع پر خواتین اسلام کو صدقہ دینے کا حکم دیا۔ آپ نے سونے چاندی کی تخصیص نہیں کی اور آپ نے عورتوں کی بالیوں اور ہاروں کو مسترد نہیں کیا اور ان سے سونے چاندی کا مطالبہ نہیں کیا، لہذا اگر زکاۃ میں دراہم کے عوض سامان وغیرہ دے دیا جائے تو جائز ہے۔ متن میں مذکور لفظ صدقة الفرض کی جگہ ابوذر کی روایت صدقة العرض ہے۔ سیاق و سباق کے اعتبار سے ابوذر کی روایت کے الفاظ راجح معلوم ہوتے ہیں، اس لیے ترجمے میں انہی کا لحاظ رکھا گیا ہے۔
اور طاؤس نے بیان کیا کہ` معاذ ؓنے یمن والوں سے کہا تھا کہ مجھے تم صدقہ میں جو اور جوار کی جگہ سامان و اسباب یعنی خمیصہ (دھاری دار چادریں) یا دوسرے لباس دے سکتے ہو جس میں تمہارے لیے بھی آسانی ہو گی اور مدینہ میں نبی کریم ﷺکے اصحاب کے لیے بھی بہتری ہو گی اور نبی کریم ﷺنے فرمایا تھا کہ خالد نے تو اپنی زرہیں اور ہتھیار اور گھوڑے سب اللہ کے راستے میں وقف کر دئیے ہیں۔ (اس لیے ان کے پاس کوئی ایسی چیز ہی نہیں جس پر زکوٰۃ واجب ہوتی۔ یہ حدیث کا ٹکڑا ہے وہ آئندہ تفصیل سے آئے گی) اور نبی کریم ﷺنے (عید کے دن عورتوں سے) فرمایا کہ صدقہ کرو خواہ تمہیں اپنے زیور ہی کیوں نہ دینے پڑ جائیں تو آپ ﷺنے یہ نہیں فرمایا کہ اسباب کا صدقہ درست نہیں۔ چنانچہ (آپ ﷺکے اس فرمان پر) عورتیں اپنی بالیاں اور ہار ڈالنے لگیں نبی کریم ﷺنے (زکوٰۃ کے لیے) سونے چاندی کی بھی کوئی تخصیص نہیں فرمائی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ نے انھیں زکوٰۃ کے وہ احکام لکھ کر دیے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ پر نازل فرمائے تھے (ان میں یہ بھی تھا) کہ’’جس کسی پر صدقے میں ایک برس کی اونٹنی فرض ہو اور وہ اس کے پاس نہ ہو اور اس کے پاس دو برس کی اونٹنی ہوتو اس میں وہی قبول کرلی جائے اور صدقہ وصول کرنے والا بیس درہم یا دو بکریاں اسے واپس دے۔ اور اگر ایک سالہ اونٹنی زکوٰۃ میں مطلوب ہو اور وہ اس کے پاس نہ ہوبلکہ اس کے پاس دو سال کا نر اونٹ ہوتو وہی قبول کرلیاجائے مگر اس صورت میں اسے کوئی چیز واپس نہ کی جائے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ کے نزدیک سونے چاندی کے بجائے دیگر مال و اسباب کا بطور زکاۃ لینا دینا جائز ہے۔ اسے بایں طور ثابت کیا ہے کہ مذکورہ حدیث میں ایک جانور کے بدلے دوسرا جانور زکاۃ میں دینا ثابت ہے اور زکاۃ وصول کرنے والے کی طرف سے زیادہ نفیس اونٹنی زکاۃ کے طور پر لینا ثابت ہے جو واجب سے زیادہ ہے اور اس کے بدلے درہم اور بکریاں واپس کرنا بھی ثابت ہے تو سامان وغیرہ لینے میں کیا حرج ہے؟ لیکن امام بخاری ؒ کی اس دلیل میں اتنا وزن نہیں ہے، کیونکہ اگر زکاۃ میں قیمت وغیرہ کا لحاظ ہوتا تو مختلف جانوروں کی عمروں کا تعین بے سود ٹھہرتا ہے۔ جب شارع ؑ نے جانوروں کی عمریں متعین کر دی ہیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ انہی کا ادا کرنا ضروری ہے، ان کے بجائے قیمت ادا کرنا صحیح نہیں۔ مذکورہ حدیث میں ایک استثنائی صورت بوقت مجبوری اختیار کی گئی ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت طاوس کہتے ہیں: حضرت معاذ بن جبلؓ نے اہل یمن سے فرمایا: "تم میرے پاس جو اور مکئی کے بجائے چادر اور لباس کی صورت میں سامان زکوٰۃ لے آؤ کیونکہ اس میں تمہارے لیے آسانی اور مدینہ منورہ میں رسول اللہ ﷺ کےصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے لیے بہتری ہے۔ نبی کریم ﷺ نے (حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق) فرمایا؛ "خالد نے اپنی زرہیں اور اپنے ہتھیار اللہ کی راہ میں وقف کررکھے ہیں۔ "
نیز نبی کریمﷺنے(عید کے موقع پر عورتوں سے) فرمایا تھا: "صدقہ دو اگرچہ زیورات ہی سے کیوں نہ ہو۔ "آ پ نے سامان وغیرہ کے صدقے کا استثناء نہیں فرمایا، چنانچہ عورتیں اپنی بالیاں اور ہاردینے لگیں۔ الغرض آپ نے سامان وغیرہ سے سونے اور چاندی کو خاص نہیں کیا، ہر چیزسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا۔ کہا کہ مجھ سے میرے والد عبداللہ بن مثنی نے بیان کیا۔ کہا کہ مجھ سے ثمامہ بن عبداللہ نے بیان کیا۔ ان سے انس ؓ نے کہ ابوبکر صدیق ؓ نے انہیں ( اپنے دور خلافت میں فرض زکوٰۃ سے متعلق ہدایت دیتے ہوئے ) اللہ اور رسول کے حکم کے مطابق یہ فرمان لکھا کہ جس کا صدقہ بنت مخاض تک پہنچ گیا ہو اور اس کے پاس بنت مخاض نہیں بلکہ بنت لبون ہے۔ تو اس سے وہی لے لیا جائے گا اور اس کے بدلہ میں صدقہ وصول کرنے والا بیس درہم یا دوبکریاں زائد دیدے گا اور اگر اس کے پاس بنت مخاض نہیں ہے بلکہ ابن لبون ہے تو یہ ابن لبون ہی لے لیا جائے گا اور اس صورت میں کچھ نہیں دیا جائے گا ‘ وہ مادہ یا نراونٹ جو تیسرے سال میں لگا ہو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): Abu Bakr (RA) wrote to me what Allah had instructed His Apostle (ﷺ) to do regarding the one who had to pay one Bint Makhad (i.e. one year-old she-camel) as Zakat, and he did not have it but had got Bint Labun (two year old she-camel). (He wrote that) it could be accepted from him as Zakat, and the collector of Zakat would return him 2O Dirhams or two sheep; and if the Zakat payer had not a Bint Makhad, but he had Ibn Labun (a two year old he-camel) then it could be accepted as his Zakat, but he would not be paid anything .