تشریح:
شریعت اسلامیہ کی یہ خوبی کس قدر اہم ہے کہ اس نے اپنے ماننے والوں کو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور ان سے سوال کرنے سے مختلف طریقوں کے ساتھ منع کیا ہے اور اپنے زور بازو سے کمانے اور رزق حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے، لیکن اس کے باوجود بعض معذور ایسے ہیں جنہیں بغیر سوال کیے چارہ نہیں۔ ان کے متعلق قرآن کا حکم ہے کہ انہیں ڈانٹ نہیں پلانی بلکہ اگر انہیں دینے کے لیے کچھ نہ ہو تو نرمی سے جواب دینا ہے۔ (2) علامہ عینی ؒ نے سوال کی تین قسمیں ذکر کی ہیں: ٭ حرام: یہ اس شخص کے لیے ہے جو زکاۃ سے بے نیاز ہو یا خواہ مخواہ اپنے آپ کو فقیر ظاہر کرے۔ ٭ مکروہ: جس کے پاس ضرورت کے لیے مال موجود ہو اور فقر کو ظاہر نہ کرے۔ ٭ مباح: جو معروف طریقے سے اپنے کسی قریبی یا دوست سے مانگتا ہے، البتہ ضرورت کے وقت اپنی جان بچانے کے لیے سوال کرنا ضروری ہے۔ حرص نفس اور سوال کے بغیر اگر کچھ مل جائے تو اسے لینے میں کوئی حرج نہیں۔ (عمدةالقاري:494/6) اس حدیث میں سوال نہ کرنے کے تین درجے بیان ہوئے ہیں: پہلا یہ ہے کہ انسان سوال سے پرہیز کرے، لیکن استغناء کو ظاہر نہ کرے، دوسرا یہ کہ مخلوق سے تو بے نیاز رہے، البتہ اسے کچھ دے دیا جائے تو خوشی سے قبول کرے اور تیسرا یہ ہے کہ دینے کے باوجود اسے قبول نہ کرے۔ یہ صبروثبات کا آخری درجہ ہے جو مکارم اخلاق کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔