تشریح:
(1) اس حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ زکاۃ مالداروں سے وصول کر کے ان کے فقراء میں تقسیم کر دی جائے۔ امام بخاری ؒ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ان الفاظ کو عام خیال کرتے ہیں کہ ایک ملک کی زکاۃ دوسرے ملک بھیجی جا سکتی ہے۔ لیکن امام بخاری ؒ مطلق طور پر یہ موقف نہیں رکھتے۔ ان کے نزدیک اگر اس شہر میں مستحقین نہ ہوں تو پھر دوسرے شہر منتقل کی جا سکتی ہے کیونکہ انہوں نے (حيث كانوا) کے الفاظ سے اشارہ کیا ہے کہ زکاۃ دوسرے ملک منتقل نہ کی جائے جبکہ وہاں مستحقین موجود ہوں۔ اگر کسی نے دوسرے ملک کے فقراء میں تقسیم کر دی تو اکثر اہل علم کے نزدیک بہتر نہیں ہے، جواز میں کسی کو کلام نہیں۔ (2) ہمارے نزدیک ضرورت اور مصلحت کے پیش نظر دوسرے شہر میں مال زکاۃ صرف کیا جا سکتا ہے، البتہ عام حالات میں بہتر ہے کہ جس علاقے سے زکاۃ وصول کی جائے اسی علاقے کے فقراء میں تقسیم کر دی جائے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے پتہ چلتا ہے۔ حضرت ابو جحیفہ ؓ سے روایت ہے کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کی طرف سے زکاۃ وصول کرنے والا شخص آیا تو اس نے ہمارے مالداروں سے زکاۃ وصول کر کے ہمارے فقراء میں تقسیم کر دی۔ (جامع الترمذي، الزکاة، حدیث:649) حضرت عمران بن حصین ؓ کو زکاۃ وصول کرنے پر مقرر کیا گیا، جب وہ واپس آئے تو انہیں کہا گیا کہ مال زکاۃ کہاں ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے مال وہاں سے لیا جہاں سے عہد رسالت میں لیا کرتے تھے اور وہیں تقسیم کر دیا جہاں پر عہد رسالت میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الزکاة، حدیث:1625) (3) واضح رہے کہ اس حدیث کے مخاطب مسلمان ہیں، لہذا غیر مسلم پر مال زکاۃ صرف نہیں کرنا چاہیے۔ (التوبة:103:9)