تشریح:
1۔ محبت کی تین اقسام ہیں: (الف)۔ محبت تعظیم، جیسے والد اور استاد سے محبت کی جاتی ہے۔ (ب)۔ محبت شفقت، جیسے اولاد اورشاگردوں سے کی جاتی ہے۔ (ج)۔ محبت استحسان، جو عام انسانوں سے کی جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں تمام اصناف محبت کوجمع کردیا ہے کہ اس وقت تک ایمان کی تکمیل نہیں ہوگی جب تک ان تمام اقسام سے زیادہ مجھ سے محبت نہ ہو۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو انسان (اس حدیث میں مذکور محبت کی طرح) محبت کرے گا، وہ آپ کے ساتھ جنت میں جائے گا۔ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6171) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کے محسن اعظم ہیں، اس لیے آپ تمام مذکورہ اقسام سے محبت کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ آپ نے ہمیں دنیا میں عزت وشرف اورآخرت میں راحت ونجات کاراستہ بتایا ہے۔ (شرح الکرماني: 99/1)۔ 2۔ محبت کے چار اسباب ہیں۔ (الف)۔ جمال، یعنی انسان خوبصورت ہو اور اس کے اعضاء میں تناسب اور اعتدال ہو۔ (ب)۔ کمال، اسے باطنی خوبصورتی سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان میں اعلیٰ درجے کے اخلاق جمع ہوں۔ بڑے بڑے سرکش بھی اس کی خوش اخلاقی کے سامنے سپرانداز ہوجاتے ہوں۔ (ج)۔ قرابت، اس سے مراد جسمانی اور روحانی تعلق داری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے روحانی باپ ہیں۔ (د) احسان، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے محسن اعظم ہیں۔ اس عالم رنگ وبو میں جس قدر بھی محبت کی وجوہات ہوسکتی ہیں وہ سب آپ کی ذات میں بدرجہ اتم موجود ہیں، اس لیے آپ کے ساتھ محبت کا وہ تعلق ہونا چاہیے جو کسی اور انسان یا مخلوق کے ساتھ نہ ہو۔ 3۔ ایک حدیث میں مومن کو نکیل دار سدھائے ہوئے اونٹ سے تشبیہ دی گئی ہے کہ اسے جب کھینچا جائے، چل پڑتا ہے اور جہاں بٹھایا جائے، بیٹھ جاتا ہے۔ (مسند احمد: 126/4) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے متعلق مومن کی یہی شان ہونی چاہیے کہ جہاں اللہ کا رسول اسے کھینچے، چل پڑے اور جہاں بٹھائے وہاں بیٹھ جائے۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے فرستادہ ہیں، اس لیے آپ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ﴾’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی،اس نے یقیناً اللہ کی اطاعت کی۔‘‘(فتح الباري: 1/ 84)