باب:اس بیان میں کہ رسول کریمﷺسے محبت رکھنا بھی ایمان میں داخل ہے
)
Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: To love the Messenger (Muhammad saws) is a part of faith)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
15.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘
تشریح:
1۔ محبت کی تین اقسام ہیں: (الف)۔ محبت تعظیم، جیسے والد اور استاد سے محبت کی جاتی ہے۔ (ب)۔ محبت شفقت، جیسے اولاد اورشاگردوں سے کی جاتی ہے۔ (ج)۔ محبت استحسان، جو عام انسانوں سے کی جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں تمام اصناف محبت کوجمع کردیا ہے کہ اس وقت تک ایمان کی تکمیل نہیں ہوگی جب تک ان تمام اقسام سے زیادہ مجھ سے محبت نہ ہو۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو انسان (اس حدیث میں مذکور محبت کی طرح) محبت کرے گا، وہ آپ کے ساتھ جنت میں جائے گا۔ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6171) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کے محسن اعظم ہیں، اس لیے آپ تمام مذکورہ اقسام سے محبت کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ آپ نے ہمیں دنیا میں عزت وشرف اورآخرت میں راحت ونجات کاراستہ بتایا ہے۔ (شرح الکرماني: 99/1)۔ 2۔ محبت کے چار اسباب ہیں۔ (الف)۔ جمال، یعنی انسان خوبصورت ہو اور اس کے اعضاء میں تناسب اور اعتدال ہو۔ (ب)۔ کمال، اسے باطنی خوبصورتی سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان میں اعلیٰ درجے کے اخلاق جمع ہوں۔ بڑے بڑے سرکش بھی اس کی خوش اخلاقی کے سامنے سپرانداز ہوجاتے ہوں۔ (ج)۔ قرابت، اس سے مراد جسمانی اور روحانی تعلق داری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے روحانی باپ ہیں۔ (د) احسان، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے محسن اعظم ہیں۔ اس عالم رنگ وبو میں جس قدر بھی محبت کی وجوہات ہوسکتی ہیں وہ سب آپ کی ذات میں بدرجہ اتم موجود ہیں، اس لیے آپ کے ساتھ محبت کا وہ تعلق ہونا چاہیے جو کسی اور انسان یا مخلوق کے ساتھ نہ ہو۔ 3۔ ایک حدیث میں مومن کو نکیل دار سدھائے ہوئے اونٹ سے تشبیہ دی گئی ہے کہ اسے جب کھینچا جائے، چل پڑتا ہے اور جہاں بٹھایا جائے، بیٹھ جاتا ہے۔ (مسند احمد: 126/4) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے متعلق مومن کی یہی شان ہونی چاہیے کہ جہاں اللہ کا رسول اسے کھینچے، چل پڑے اور جہاں بٹھائے وہاں بیٹھ جائے۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے فرستادہ ہیں، اس لیے آپ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ﴾’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی،اس نے یقیناً اللہ کی اطاعت کی۔‘‘(فتح الباري: 1/ 84)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
15
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
15
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
15
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
15
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ محبت کی تین اقسام ہیں: (الف)۔ محبت تعظیم، جیسے والد اور استاد سے محبت کی جاتی ہے۔ (ب)۔ محبت شفقت، جیسے اولاد اورشاگردوں سے کی جاتی ہے۔ (ج)۔ محبت استحسان، جو عام انسانوں سے کی جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں تمام اصناف محبت کوجمع کردیا ہے کہ اس وقت تک ایمان کی تکمیل نہیں ہوگی جب تک ان تمام اقسام سے زیادہ مجھ سے محبت نہ ہو۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو انسان (اس حدیث میں مذکور محبت کی طرح) محبت کرے گا، وہ آپ کے ساتھ جنت میں جائے گا۔ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6171) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کے محسن اعظم ہیں، اس لیے آپ تمام مذکورہ اقسام سے محبت کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ آپ نے ہمیں دنیا میں عزت وشرف اورآخرت میں راحت ونجات کاراستہ بتایا ہے۔ (شرح الکرماني: 99/1)۔ 2۔ محبت کے چار اسباب ہیں۔ (الف)۔ جمال، یعنی انسان خوبصورت ہو اور اس کے اعضاء میں تناسب اور اعتدال ہو۔ (ب)۔ کمال، اسے باطنی خوبصورتی سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان میں اعلیٰ درجے کے اخلاق جمع ہوں۔ بڑے بڑے سرکش بھی اس کی خوش اخلاقی کے سامنے سپرانداز ہوجاتے ہوں۔ (ج)۔ قرابت، اس سے مراد جسمانی اور روحانی تعلق داری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے روحانی باپ ہیں۔ (د) احسان، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے محسن اعظم ہیں۔ اس عالم رنگ وبو میں جس قدر بھی محبت کی وجوہات ہوسکتی ہیں وہ سب آپ کی ذات میں بدرجہ اتم موجود ہیں، اس لیے آپ کے ساتھ محبت کا وہ تعلق ہونا چاہیے جو کسی اور انسان یا مخلوق کے ساتھ نہ ہو۔ 3۔ ایک حدیث میں مومن کو نکیل دار سدھائے ہوئے اونٹ سے تشبیہ دی گئی ہے کہ اسے جب کھینچا جائے، چل پڑتا ہے اور جہاں بٹھایا جائے، بیٹھ جاتا ہے۔ (مسند احمد: 126/4) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے متعلق مومن کی یہی شان ہونی چاہیے کہ جہاں اللہ کا رسول اسے کھینچے، چل پڑے اور جہاں بٹھائے وہاں بیٹھ جائے۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے فرستادہ ہیں، اس لیے آپ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ﴾’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی،اس نے یقیناً اللہ کی اطاعت کی۔‘‘(فتح الباري: 1/ 84)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہمیں حدیث بیان کی یعقوب بن ابراہیم نے، ان کو ابن علیہ نے، وہ عبدالعزیز بن صہیب سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت انس ؓ سے وہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں اور ہم کو آدم بن ابی ایاس نے حدیث بیان کی، ان کو شعبہ نے، وہ قتادہ سے نقل کرتے ہیں، وہ حضرت انس ؓ سے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
اس روایت میں دوسندیں ہیں: پہلی سند میں حضرت امام کے استاد یعقوب بن ابراہیم ہیں اور دوسری سند میں آدم بن ابی ایاس ہیں۔ تحویل کی صورت اس لیے اختیار نہیں کی کہ ہردو سندیں حضرت انس ؓ پر جا کر مل جاتی ہیں۔ آنحضرت ﷺ کے لیے ان روایات میں جس محبت کا مطالبہ ہے وہ محبت طبعی مراد ہے کیونکہ حدیث میں والد اور ولد سے مقابلہ ہے اور ان سے انسان کو محبت طبعی ہی ہوتی ہے پس آنحضرت ﷺ سے محبت طبعی اس درجہ میں مطلوب ہے کہ وہاں تک کسی کی بھی محبت کی رسائی نہ ہو۔ حتیٰ کہ اپنے نفس تک کی بھی محبت نہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): The Prophet (ﷺ) said "None of you will have faith till he loves me more than his father, his children and all mankind".