تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محرم آدمی احرام باندھنے سے پہلے خوشبو لگا سکتا ہے اگرچہ اس کے اثرات احرام کے بعد باقی رہیں، البتہ احرام کے بعد خوشبو لگانا صحیح نہیں۔ حضرت عائشہ ؓ سے مروی بعض روایات میں ہے کہ میں نے تین دن کے بعد اس خوشبو کے اثرات دیکھے تھے۔ اس روایت سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جن کا موقف ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے احرام سے پہلے جو خوشبو استعمال کی تھی، احرام باندھنے سے قبل آپ نے جو غسل کیا اس کے اثرات اس غسل سے ختم ہو گئے تھے۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ہم احرام کے وقت اپنے چہرے پر خوشبودار مرکب خوشبو کا ضماد کر لیا کرتی تھیں، جب پسینہ آتا تو وہ ہمارے چہرے پر بہنے لگتا۔ رسول اللہ ﷺ یہ منظر دیکھتے لیکن ہمیں اس سے منع نہیں کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1830) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر خوشبو کے علاوہ اس کا اپنا وجود بھی باقی رہے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:503/3) واللہ أعلم۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دسویں تاریخ کو جب جمرہ عقبہ کی رمی کر لی جائے تو احرام کی پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں، صرف عورت کے پاس جانے کی اجازت نہیں ہوتی، یہ پابندی بھی طواف زیارت کے بعد ختم ہو جاتی ہے، نیز ان روایات میں احرام سے پہلے صرف خوشبو لگانے کا بیان ہے جبکہ امام بخاری ؒ نے کنگھی کرنے اور تیل لگانے کا ذکر بھی کیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے ان چیزوں کو خوشبو پر قیاس نہیں کیا بلکہ ایک روایت کی بنیاد پر ایسا کیا ہے، وہ روایت یہ ہے: حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر مدینہ منورہ سے بالوں کو تیل لگا کر اور کنگھی کر کے روانہ ہوئے۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1545)