Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The Statement of Allah Ta'ala)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1539.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ اہل یمن حج کرتے لیکن زاد سفر ساتھ نہ لیتے تھے اور کہتے کہ ہم متوکل ہیں۔ جب وہ مکہ مکرمہ آتے تو لوگوں کے سامنے دست سوال پھیلاتے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’دازسفر ساتھ لے کر چلو۔ بلا شبہ بہترین زادراہ تو تقویٰ (سوال سے بچنا ) ہے۔‘‘ اس روایت کو ابن عیینہ نے عمرو بن دینار سے، انھوں نے حضرت عکرمہ سے مرسل طور پر بیان کیا ہے۔
تشریح:
(1) توکل کی تعریف یہ ہے کہ اسباب وذرائع کو بروئے کارلاکر پھر اللہ پر بھروسہ کیا جائے کیونکہ ان ذرائع کو مؤثر اور ثمر آور بنانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ کر بیٹھ رہنا یہ تاکل ہے توکل نہیں۔ مذکورہ حدیث میں توکل کی مذمت نہیں بلکہ لوگوں کے فعل کی مذمت ہے کیونکہ ان کا فعل توکل نہیں محض تکلف تھا۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے مہلب کے حوالے سے لکھا ہے کہ سوال نہ کرنا تقویٰ سے ہے اور اس کی تائید اس امر سے ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی تعریف کی ہے جو لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتا۔ مذکورہ آیت کے معنی یہ ہیں کہ سفر حج میں توشہ لے کر چلو اور لوگوں سے سوال کرکے انھیں تکلیف نہ پہنچاؤ، نیز سوال کرنے کے گناہ سے پرہیز کرو۔ (فتح الباري:484/3) آج بھی جو لوگ دوران حج میں دست سوال دراز کرتے ہیں انھوں نے حج کے مقصد کو نہیں سمجھا۔ (3) ابن عینیہ کی روایت کو سعید بن منصور نے اپنی سنن میں بیان کیا ہے۔ (4) مرسل اس حدیث کو کہتے ہیں کہ تابعی رسول الله ﷺ سے براہِ راست بیان کرے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1484
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1523
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1523
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1523
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ اہل یمن حج کرتے لیکن زاد سفر ساتھ نہ لیتے تھے اور کہتے کہ ہم متوکل ہیں۔ جب وہ مکہ مکرمہ آتے تو لوگوں کے سامنے دست سوال پھیلاتے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’دازسفر ساتھ لے کر چلو۔ بلا شبہ بہترین زادراہ تو تقویٰ (سوال سے بچنا ) ہے۔‘‘ اس روایت کو ابن عیینہ نے عمرو بن دینار سے، انھوں نے حضرت عکرمہ سے مرسل طور پر بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) توکل کی تعریف یہ ہے کہ اسباب وذرائع کو بروئے کارلاکر پھر اللہ پر بھروسہ کیا جائے کیونکہ ان ذرائع کو مؤثر اور ثمر آور بنانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ کر بیٹھ رہنا یہ تاکل ہے توکل نہیں۔ مذکورہ حدیث میں توکل کی مذمت نہیں بلکہ لوگوں کے فعل کی مذمت ہے کیونکہ ان کا فعل توکل نہیں محض تکلف تھا۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے مہلب کے حوالے سے لکھا ہے کہ سوال نہ کرنا تقویٰ سے ہے اور اس کی تائید اس امر سے ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی تعریف کی ہے جو لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتا۔ مذکورہ آیت کے معنی یہ ہیں کہ سفر حج میں توشہ لے کر چلو اور لوگوں سے سوال کرکے انھیں تکلیف نہ پہنچاؤ، نیز سوال کرنے کے گناہ سے پرہیز کرو۔ (فتح الباري:484/3) آج بھی جو لوگ دوران حج میں دست سوال دراز کرتے ہیں انھوں نے حج کے مقصد کو نہیں سمجھا۔ (3) ابن عینیہ کی روایت کو سعید بن منصور نے اپنی سنن میں بیان کیا ہے۔ (4) مرسل اس حدیث کو کہتے ہیں کہ تابعی رسول الله ﷺ سے براہِ راست بیان کرے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بشر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شبابہ بن سوار نے بیان کیا، ان سے ورقاء بن عمرو نے، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عکرمہ نے بیان کیااور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ یمن کے لوگ راستہ کا خرچ ساتھ لائے بغیر حج کے لئے آجاتے تھے۔ کہتے تو یہ تھے کہ ہم توکل کرتے ہیں لیکن جب مکہ آتے تو لوگوں سے مانگنے لگتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ”اور توشہ لے لیا کرو کہ سب سے بہتر توشہ تو تقویٰ ہی ہے۔“ اس کو ابن عیینہ نے عمرو سے بواسطہ عکرمہ مرسلاً نقل کیاہے۔
حدیث حاشیہ:
مرسل اس حدیث کو کہتے ہیں کہ تابعی آنحضرت ﷺ کی حدیث بیان کرے اور جس صحابی سے وہ نقل کررہا ہے اس کا نام نہ لے۔ صحابی کا نام لینے سے یہی حدیث پھر مرفوع کہلاتی ہے جو درجہ قبولیت میں خاص مقام رکھتی ہے۔ یعنی صحیح مرفوع حدیث نبوی (صلی اللہ علیه وسلم) آیت شریفہ میں تقویٰ سے مراد مانگنے سے بچنا اور اپنے مصارف سفر کا خود انتطام کرنا مراد ہے اور یہ بھی کہ اس سفر سے بھی زیادہ اہم سفر آخرت درپیش ہے۔ اس کا توشہ بھی تقویٰ پر ہیزگاری گناہوں سے بچنا اور پاک زندگی گزارنا ہے۔ بہ سلسلہ حج تقویٰ کی تلقین یہی حج کا ماحصل ہے۔ آج بھی جولوگ حج میں دست سوال دراز کرتے ہیں، انہوں نے حج کا مقصد ہی نہیں سمجھا۔ قَالَ الْمُهَلَّبُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ مِنَ الْفِقْهِ أَنَّ تَرْكَ السُّؤَالِ مِنَ التَّقْوَى وَيُؤَيِّدُهُ أَنَّ اللَّهَ مَدَحَ مَنْ لَمْ يَسْأَلِ النَّاسَ إِلْحَافًا فَإِنَّ قَوْلَهُ فَإِنَّ خَيْرَ الزَّاد التَّقْوَى أَيْ تَزَوَّدُوا وَاتَّقُوا أَذَى النَّاسِ بِسُؤَالِكُمْ إِيَّاهُمْ وَالْإِثْمَ فِي ذَلِكَ ( فتح ) یعنی مہلب نے کہا کہ اس حدیث سے یہ سمجھا گیا کہ سوال نہ کرنا تقویٰ سے ہے اور اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ اللہ پاک نے اس شخص کی تعریف کی ہے جو لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتا۔ خیرالزاد التقویٰ کا مطلب یہ کہ ساتھ میں توشہ اور سوال کر کر کے لوگوں کو تکلیف نہ پہنچاؤ اور سوال کرنے کے گناہ سے بچو۔ مانگنے والا متوکل نہیں ہوسکتا۔ حقیقی توکل یہی ہے کہ کسی سے بھی کسی چیز میں مدد نہ مانگی جائے اور اسباب مہیا کرنے کے باوجود بھی اسباب سے قطع نظر کرنا یہ توکل سے ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے اونٹ والے سے فرمایا تھا کہ اسے مضبوط باندھ پھر اللہ پر بھروسہ رکھ
گفت پیغمبر باواز بلند برتوکل زانوئے اشتربہ بند
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): The people of Yemen used to come for Hajj and used not to bring enough provisions with them and used to say that they depend on Allah. On their arrival in Makkah they used to beg the people, and so Allah revealed, "And take a provision (with you) for the journey, but the best provision is the fear of Allah." (2.197). ________