Sahi-Bukhari
4. Ablutions (Wudu')
17. Chapter: To carry an 'Anaza (spear-headed stick) along with the water for washing the private parts after answering the call of nature
باب:اس بیان میں کہ استنجاء کے لیےپانی کے ساتھ نیزہ (بھی) لے جانا ثابت ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: To carry an 'Anaza (spear-headed stick) along with the water for washing the private parts after answering the call of nature)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
155.
حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، آپ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب قضائے حاجت کے لیے جاتے تو میں اور ایک لڑکا پانی کی چھاگل اور ایک برچھی لے کر آپ کے ساتھ ہو جاتے۔ آپ پانی سے استنجا کرتے تھے۔ نضر اور شاذان نے حضرت شعبہ سے اس (محمد بن جعفر) کی متابعت کی ہے۔ عنزه اس لاٹھی کو کہتے ہیں جس کے آگے لوہے کا پھل لگا ہو۔
تشریح:
1۔ پانی اور برچھی دونوں کا تعلق استنجا سے ہے۔ پانی کاتعلق تو ظاہر ہے اور اسے حدیث کے آخر میں بیان بھی کر دیا گیا ہے اور برچھی اس لیے ساتھ لے جاتے تاکہ سخت جگہ کو نرم کر کے پیشاب کے چھینٹوں سے بچا جا سکے، نیز سخت زمین سے ڈھیلے حاصل کرنے کے لیے بھی اسے کام میں لایا جاتا تھا۔ اس سے اور بھی کام لیے جاتے تھے، مثلاً: (الف)۔ موذی جانوروں سے اور دشمنوں کے شر سے بچنے کے لیے اسے کام میں لایا جاتا۔ (ب)۔ اسے بوقت نماز بطور سترہ آگے گاڑدیا جاتا۔ لیکن پانی کے ساتھ اسے لے جانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ اس سے زمین کونرم کیا جائے اور اس سے ڈھیلے حاصل کیے جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پانی اور مٹی کے ڈھیلے استعمال کرنا پسند تھا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے پانی اور ڈھیلوں کا جمع کرنا ثابت فرمایا ہے۔ اس کا ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ اس باب کو ’’استنجا کے لیے پانی ہمراہ لے جانا‘‘ اور ’’پتھروں سے استنجا کرنا۔‘‘ (جو آگے آرہا ہے) ان دونوں کے درمیان بیان کیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک پانی اورڈھیلوں کا جمع کرنا سب سے بہتر عمل ہے۔ 2۔ اس سے پہلے ہشام بن عبدالملک اور سلیمان بن حرب نے اسی روایت کو حضرت شعبہ سے بیان کیا ہے۔ ان کی بیان کردہ روایت میں(عَنَزَة) کا اضافہ نہیں ہے، اس بنا پر شبہ ہو سکتا تھا کہ شاید مذکورہ روایت میں شعبہ سے بیان کرنے والے محمد بن جعفر کے یہ الفاظ درست نہ ہوں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے متابعت بیان کرکے اسی شبے کا ازالہ فرمایا ہےکہ یہ اضافہ درست ہے، چنانچہ نضر بن شمیل کی روایت سنن نسائی (الطھارة، حدیث:45) میں اور شاذان بن عامر کی روایت صحیح بخاری (الصلاة، حدیث: 500) میں ہے۔ ان روایات میں(عَنَزَة) کی صراحت ہے، نیز آخری روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ جب آپ قضائےحاجت سے فارغ ہو جاتے تو ہم پانی کا برتن آپ کو دے دیتے۔ 3۔ (يَدْخُلُ الْخَلاَءَ) سے مراد خلوت کی جگہ میدان وغیرہ ہے۔ گھروں میں بنے ہوئے بیت الخلاء مراد نہیں کیونکہ گھر میں اس قسم کی خدمت اہل خانہ بجالاتے تھے، نیز گھروں میں برچھی وغیرہ ساتھ لے جانے کی ضرورت نہیں تھی، پھر گزشتہ روایت میں اس کی وضاحت بایں الفاظ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حاجت کے لیے باہرجاتے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
154
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
152
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
152
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
152
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، آپ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب قضائے حاجت کے لیے جاتے تو میں اور ایک لڑکا پانی کی چھاگل اور ایک برچھی لے کر آپ کے ساتھ ہو جاتے۔ آپ پانی سے استنجا کرتے تھے۔ نضر اور شاذان نے حضرت شعبہ سے اس (محمد بن جعفر) کی متابعت کی ہے۔ عنزه اس لاٹھی کو کہتے ہیں جس کے آگے لوہے کا پھل لگا ہو۔
حدیث حاشیہ:
1۔ پانی اور برچھی دونوں کا تعلق استنجا سے ہے۔ پانی کاتعلق تو ظاہر ہے اور اسے حدیث کے آخر میں بیان بھی کر دیا گیا ہے اور برچھی اس لیے ساتھ لے جاتے تاکہ سخت جگہ کو نرم کر کے پیشاب کے چھینٹوں سے بچا جا سکے، نیز سخت زمین سے ڈھیلے حاصل کرنے کے لیے بھی اسے کام میں لایا جاتا تھا۔ اس سے اور بھی کام لیے جاتے تھے، مثلاً: (الف)۔ موذی جانوروں سے اور دشمنوں کے شر سے بچنے کے لیے اسے کام میں لایا جاتا۔ (ب)۔ اسے بوقت نماز بطور سترہ آگے گاڑدیا جاتا۔ لیکن پانی کے ساتھ اسے لے جانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ اس سے زمین کونرم کیا جائے اور اس سے ڈھیلے حاصل کیے جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پانی اور مٹی کے ڈھیلے استعمال کرنا پسند تھا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے پانی اور ڈھیلوں کا جمع کرنا ثابت فرمایا ہے۔ اس کا ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ اس باب کو ’’استنجا کے لیے پانی ہمراہ لے جانا‘‘ اور ’’پتھروں سے استنجا کرنا۔‘‘ (جو آگے آرہا ہے) ان دونوں کے درمیان بیان کیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک پانی اورڈھیلوں کا جمع کرنا سب سے بہتر عمل ہے۔ 2۔ اس سے پہلے ہشام بن عبدالملک اور سلیمان بن حرب نے اسی روایت کو حضرت شعبہ سے بیان کیا ہے۔ ان کی بیان کردہ روایت میں(عَنَزَة) کا اضافہ نہیں ہے، اس بنا پر شبہ ہو سکتا تھا کہ شاید مذکورہ روایت میں شعبہ سے بیان کرنے والے محمد بن جعفر کے یہ الفاظ درست نہ ہوں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے متابعت بیان کرکے اسی شبے کا ازالہ فرمایا ہےکہ یہ اضافہ درست ہے، چنانچہ نضر بن شمیل کی روایت سنن نسائی (الطھارة، حدیث:45) میں اور شاذان بن عامر کی روایت صحیح بخاری (الصلاة، حدیث: 500) میں ہے۔ ان روایات میں(عَنَزَة) کی صراحت ہے، نیز آخری روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ جب آپ قضائےحاجت سے فارغ ہو جاتے تو ہم پانی کا برتن آپ کو دے دیتے۔ 3۔ (يَدْخُلُ الْخَلاَءَ) سے مراد خلوت کی جگہ میدان وغیرہ ہے۔ گھروں میں بنے ہوئے بیت الخلاء مراد نہیں کیونکہ گھر میں اس قسم کی خدمت اہل خانہ بجالاتے تھے، نیز گھروں میں برچھی وغیرہ ساتھ لے جانے کی ضرورت نہیں تھی، پھر گزشتہ روایت میں اس کی وضاحت بایں الفاظ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حاجت کے لیے باہرجاتے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ان سے محمد بن جعفر نے، ان سے شعبہ نے عطاء بن ابی میمونہ کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے انس بن مالک سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ پاخانے میں جاتے تو میں اور ایک لڑکا پانی کا برتن اور نیزہ لے کر چلتے تھے۔ پانی سے آپ طہارت کرتے تھے، (دوسری سند سے) نضر اور شاذان نے اس حدیث کی شعبہ سے متابعت کی ہے۔ عنزہ لاٹھی کو کہتے ہیں جس پر پھلکا لگا ہوا ہو۔
حدیث حاشیہ:
یہ ڈھیلا توڑنے کے لیے کام میں لائی جاتی تھی اور موذی جانوروں کو دفع کرنے کے لیے بھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Whenever Allah's Apostle (ﷺ) went to answer the call of nature, I along with another boy used to carry a tumbler full of water (for cleaning the private parts) and an 'Anza (spear-headed stuck).