تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود ان لوگوں کی تردید کرنا ہے جوڈھیلوں سے استنجا کرنے کو ناجائز کہتے ہیں، یا پانی کی موجودگی میں ان کے استعمال کو ناروا خیال کرتے ہیں۔اس سلسلے میں انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل پیش فرمایا ہے۔ آپ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہدایت فرمائی کہ ہڈی اور گوبر مت لانا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہڈی اورگوبر کے علاوہ ہر جذب کرنے والی چیز جو کسی جاندار کی غذا نہ ہو، استنجا میں استعمال کی جا سکتی ہے۔ مٹی کے ڈھیلوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ ان میں رطوبت جذب ہوجاتی ہے۔ (فتح الباري: 335/1) آج کل ٹشو پیپر صفائی کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔ یہ بھی جاذب ہونے کی وجہ سے اس مقصد کو پورا کرسکتے ہیں۔
2۔ ہڈی اور گوبر سے طہارت نہ کرنے کی دو وجہیں بیان ہوئی ہیں: (الف)۔ ان دونوں سے تطہیر نہیں ہوتی بعض روایات میں اس کی وضاحت ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہڈی اور گوبر کی خصوصیت نہیں بلکہ ہر وہ چیز جو تطہیر کے قابل نہ ہو، استنجا کے لیے بے کار ہے۔ لید کی نجاست تو ظاہر ہے۔ اس سے طہارت حاصل نہیں ہوتی بلکہ رطوبت کے ملنے سے اس کی نجاست دوچند ہوجائے گی۔ ہڈی سے بھی تطہیر کا مقصد حاصل نہیں ہوتا کیونکہ اس میں جذب کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ چکنی ہونے کی وجہ سے نجاست کا ازالہ نہیں کرسکتی۔ (ب)۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں جنات کی غذا ہیں۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے پاس جن آئےاور انھوں نے زاد سفر کی درخواست کی تو میں نے انھیں ہڈی اور گوبر کازاد دیا۔ وہ انھیں کھاتے نہیں بلکہ ان پر گوشت اور چارہ پیدا کر دیا جاتا ہے، یعنی ان کے ساتھ جنات کی غذا کا تعلق ہے۔ آپ نے اس لیے منع فرمایا تاکہ انھیں استنجا سے خراب نہ کیاجائے۔ (فتح الباري: 336/1) بعض روایات میں ہے کہ جنات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپ اپنی اُمت کو فرما دیں کہ وہ ہڈی، گوبر اور کوئلے سے استنجا نہ کیا کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں میں ہمارے لیے غذا رکھی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ استنجا میں مطعومات کا استعمال درست نہیں ہے اور یہ غذا کے احترام کی وجہ سے ہے لہٰذا ہر وہ چیز جو کسی بھی حیثیت سے قابل احترام ہو، استنجا میں استعمال نہیں ہوگی۔ الغرض ہر وہ غیر محترم پاک چیز جو نجاست کے ازالے کی صلاحیت رکھتی ہو، استنجا کے لیے استعمال ہوسکتی ہے اور جس چیز میں جذب کی صلاحیت نہ ہو خواہ وہ بے ضرر ہو اور قابل احترام بھی ہو، اسے استنجا کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا، جیسے شیشہ وغیرہ کیونکہ اس سے نجاست کا ازالہ نہیں ہوتا۔ (فتح الباري: 336/1)
4۔ خدام کی تین اقسام ہیں: (الف)۔ وہ خدام جو اپنے مخدومین کے رمز شناس ہوں اور ان کے کہنے کے بغیر ہی اپنے آقاؤں کی ضروریات کا خیال رکھتے ہوں۔ (ب)۔ وہ خدام جب انھیں اپنے مخدوم کی خدمت کا کہا جائے تو اس کی بجا آوری کو اپنے لیے سعادت مندی خیال کرتے ہوں۔ (ج)۔ وہ خدام جو کہنے کے باوجود اس کی بجا آوری میں سست روی کا مظاہرہ کریں۔عام طور پر مساجد کے خدام اسی طرح کے ہوتے ہیں۔ بقول شخصے، زمین جنبد نہ جنبد گل محمد۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدام آپ کی خدمت میں پیش پیش رہنے کو اپنی سعادت خیال کرتے تھے اور آپ کے سامان طہارت کو قبل از استعمال تیار رکھتے تھے تاکہ آپ کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔