تشریح:
(1) حج کے سلسلے میں مبہم نیت کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ تاکہ جواز کی صورت میں پیش آمدہ حالات و ظروف کو مدنظر رکھتے ہوئے اس میں تبدیلی کی جا سکے۔ امام بخارى ؒ کا رجحان اس طرف ہے کہ اس کا جواز صرف رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تھا جیسا کہ ہم آئندہ تفصیل سے بیان کریں گے۔ (2) اس کے متعلق امام بخاری ؒ نے حضرت جابر ؓ کی روایت انتہائی اختصار سے پیش کی ہے۔ ایک دوسری روایت میں تفصیل ہے: حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ نے حج کا احرام باندھا، لیکن رسول اللہ ﷺ اور حضرت طلحہ ؓ کے علاوہ کسی کے پاس قربانی کا جانور نہیں تھا، حضرت علی ؓ یمن سے آئے تو وہ اپنی قربانی کے جانور ساتھ لے کر آئے تھے اور ان کا احرام رسول اللہ ﷺ کے احرام جیسا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے مکہ پہنچ کر فرمایا: ’’جو شخص اپنے ساتھ قربانی نہیں لایا وہ اس احرام کو عمرے میں بدل لے۔ طواف اور سعی کر کے حلال ہو جائے۔ اگر میرے ساتھ قربانی نہ ہوتی تو میں بھی ایسا ہی کرتا۔‘‘ (صحیح البخاري، العمرة، حدیث:1785) رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: وہ اپنے احرام کو جوں کا توں رکھے اور اسے قربانیوں میں شریک کر لیا۔ (صحیح البخاري، الشرکة، حدیث:2506) (3) اس حدیث میں اجمالی طور پر حضرت سراقہ ؓ کا ذکر بھی ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! احرام حج کو ختم کر کے عمرے میں بدل لینا پھر طواف اور سعی کر کے حلال ہو جانا صرف آپ کے (زمانہ مبارک کے) ساتھ خاص ہے (یا آئندہ کے لیے بھی ایسا ہو سکتا ہے؟) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں! بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے، یعنی عمرے کو حج میں داخل کر دیا گیا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، العمرة، حدیث:1785)