تشریح:
1۔ ابن عیینہ نے بیان کیا ہے کہ راوی حدیث ہی عبد اللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جنھوں نے حدیث اذان کو بیان کیا ہے لیکن یہ بات صحیح نہیں کیونکہ وہ عبد اللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبیلہ بنو حارثہ سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ عبد اللہ بن زید بن عاصم انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبیلہ بنو مازن سے متعلق ہیں البتہ دونوں خزرجی ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خود اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ (صحیح البخاري، الإستقاء، حدیث: 1012) راوی حدیث سے کتب حدیث میں 42 احادیث مروی ہیں جبکہ صاحب اذان سے حدیث اذان کے علاوہ کوئی حدیث مروی نہیں۔ (عمدۃ القاري: 356/2)
2۔ اعضاء کا دو، دو مرتبہ دھونا سنت کا دوسرا درجہ ہے اور ایسا کرنا حدیث سے ثابت ہے۔ اگرچہ اس پر اعتراض کیا گیا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خود بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا کلی اور ناک میں تین تین مرتبہ پانی ڈالا اور چہرے کو بھی تین مرتبہ دھویا پھر کلائیوں کو کہنیوں تک دو دو مرتبہ دھویا۔(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 191) لہٰذا باب اس طرح ہونا چاہیے تھا کہ وضو کرتے وقت بعض اعضاء دو، دو مرتبہ اور بعض کو تین، تین دفعہ دھونے کا بیان، لیکن اس اعتراض کی کوئی حقیقت نہیں کیونکہ راوی حدیث اپنا مشاہدہ بیان کر رہا ہے کہ انھوں نے ایک شاگرد (عباد بن تمیم) کو ایک، ایک مرتبہ دھونے کا مشاہدہ بیان فرمایا اور دوسرے شاگرد(یحییٰ المازنی) کو دودو یا تین تین دفعہ دھونے کا ذکر کردیا۔ (عمدۃ القاري: 436/2)