باب: اس بارے میں کہ پتھروں سے استنجاء کرنا ثابت ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: To clean the private parts with stones)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
158.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دن نبی ﷺ قضائے حاجت کے لیے باہر گئے تو میں بھی آپ کے پیچھے ہو لیا۔ آپ (کی عادت مبارکہ تھی کہ چلتے وقت) دائیں بائیں نہ دیکھتے تھے۔ جب میں آپ کے قریب پہنچا تو آپؐ نے فرمایا: ’’مجھے ڈھیلے تلاش کر دو، میں ان سے استنجا کروں گا ۔۔ یا اس کی مثل کوئی اور لفظ استعمال فرمایا ۔۔ لیکن ہڈی اور گوبر نہ لانا۔‘‘ چنانچہ میں اپنے کپڑے کے کنارے میں کئی ڈھیلے لے کر آیا اور انہیں آپ کے پاس رکھ دیا اور خود ایک طرف ہٹ گیا۔ پھر جب آپ قضائے حاجت سے فارغ ہوئے تو ڈھیلوں سے استنجا فرمایا۔
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود ان لوگوں کی تردید کرنا ہے جوڈھیلوں سے استنجا کرنے کو ناجائز کہتے ہیں، یا پانی کی موجودگی میں ان کے استعمال کو ناروا خیال کرتے ہیں۔اس سلسلے میں انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل پیش فرمایا ہے۔ آپ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہدایت فرمائی کہ ہڈی اور گوبر مت لانا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہڈی اورگوبر کے علاوہ ہر جذب کرنے والی چیز جو کسی جاندار کی غذا نہ ہو، استنجا میں استعمال کی جا سکتی ہے۔ مٹی کے ڈھیلوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ ان میں رطوبت جذب ہوجاتی ہے۔ (فتح الباري: 335/1) آج کل ٹشو پیپر صفائی کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔ یہ بھی جاذب ہونے کی وجہ سے اس مقصد کو پورا کرسکتے ہیں۔ 2۔ ہڈی اور گوبر سے طہارت نہ کرنے کی دو وجہیں بیان ہوئی ہیں: (الف)۔ ان دونوں سے تطہیر نہیں ہوتی بعض روایات میں اس کی وضاحت ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہڈی اور گوبر کی خصوصیت نہیں بلکہ ہر وہ چیز جو تطہیر کے قابل نہ ہو، استنجا کے لیے بے کار ہے۔ لید کی نجاست تو ظاہر ہے۔ اس سے طہارت حاصل نہیں ہوتی بلکہ رطوبت کے ملنے سے اس کی نجاست دوچند ہوجائے گی۔ ہڈی سے بھی تطہیر کا مقصد حاصل نہیں ہوتا کیونکہ اس میں جذب کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ چکنی ہونے کی وجہ سے نجاست کا ازالہ نہیں کرسکتی۔ (ب)۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں جنات کی غذا ہیں۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے پاس جن آئےاور انھوں نے زاد سفر کی درخواست کی تو میں نے انھیں ہڈی اور گوبر کازاد دیا۔ وہ انھیں کھاتے نہیں بلکہ ان پر گوشت اور چارہ پیدا کر دیا جاتا ہے، یعنی ان کے ساتھ جنات کی غذا کا تعلق ہے۔ آپ نے اس لیے منع فرمایا تاکہ انھیں استنجا سے خراب نہ کیاجائے۔ (فتح الباري: 336/1) بعض روایات میں ہے کہ جنات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپ اپنی اُمت کو فرما دیں کہ وہ ہڈی، گوبر اور کوئلے سے استنجا نہ کیا کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں میں ہمارے لیے غذا رکھی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ استنجا میں مطعومات کا استعمال درست نہیں ہے اور یہ غذا کے احترام کی وجہ سے ہے لہٰذا ہر وہ چیز جو کسی بھی حیثیت سے قابل احترام ہو، استنجا میں استعمال نہیں ہوگی۔ الغرض ہر وہ غیر محترم پاک چیز جو نجاست کے ازالے کی صلاحیت رکھتی ہو، استنجا کے لیے استعمال ہوسکتی ہے اور جس چیز میں جذب کی صلاحیت نہ ہو خواہ وہ بے ضرر ہو اور قابل احترام بھی ہو، اسے استنجا کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا، جیسے شیشہ وغیرہ کیونکہ اس سے نجاست کا ازالہ نہیں ہوتا۔ (فتح الباري: 336/1) 4۔ خدام کی تین اقسام ہیں: (الف)۔ وہ خدام جو اپنے مخدومین کے رمز شناس ہوں اور ان کے کہنے کے بغیر ہی اپنے آقاؤں کی ضروریات کا خیال رکھتے ہوں۔ (ب)۔ وہ خدام جب انھیں اپنے مخدوم کی خدمت کا کہا جائے تو اس کی بجا آوری کو اپنے لیے سعادت مندی خیال کرتے ہوں۔ (ج)۔ وہ خدام جو کہنے کے باوجود اس کی بجا آوری میں سست روی کا مظاہرہ کریں۔عام طور پر مساجد کے خدام اسی طرح کے ہوتے ہیں۔ بقول شخصے، زمین جنبد نہ جنبد گل محمد۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدام آپ کی خدمت میں پیش پیش رہنے کو اپنی سعادت خیال کرتے تھے اور آپ کے سامان طہارت کو قبل از استعمال تیار رکھتے تھے تاکہ آپ کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
157
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
155
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
155
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
155
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دن نبی ﷺ قضائے حاجت کے لیے باہر گئے تو میں بھی آپ کے پیچھے ہو لیا۔ آپ (کی عادت مبارکہ تھی کہ چلتے وقت) دائیں بائیں نہ دیکھتے تھے۔ جب میں آپ کے قریب پہنچا تو آپؐ نے فرمایا: ’’مجھے ڈھیلے تلاش کر دو، میں ان سے استنجا کروں گا ۔۔ یا اس کی مثل کوئی اور لفظ استعمال فرمایا ۔۔ لیکن ہڈی اور گوبر نہ لانا۔‘‘ چنانچہ میں اپنے کپڑے کے کنارے میں کئی ڈھیلے لے کر آیا اور انہیں آپ کے پاس رکھ دیا اور خود ایک طرف ہٹ گیا۔ پھر جب آپ قضائے حاجت سے فارغ ہوئے تو ڈھیلوں سے استنجا فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود ان لوگوں کی تردید کرنا ہے جوڈھیلوں سے استنجا کرنے کو ناجائز کہتے ہیں، یا پانی کی موجودگی میں ان کے استعمال کو ناروا خیال کرتے ہیں۔اس سلسلے میں انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل پیش فرمایا ہے۔ آپ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہدایت فرمائی کہ ہڈی اور گوبر مت لانا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہڈی اورگوبر کے علاوہ ہر جذب کرنے والی چیز جو کسی جاندار کی غذا نہ ہو، استنجا میں استعمال کی جا سکتی ہے۔ مٹی کے ڈھیلوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ ان میں رطوبت جذب ہوجاتی ہے۔ (فتح الباري: 335/1) آج کل ٹشو پیپر صفائی کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔ یہ بھی جاذب ہونے کی وجہ سے اس مقصد کو پورا کرسکتے ہیں۔ 2۔ ہڈی اور گوبر سے طہارت نہ کرنے کی دو وجہیں بیان ہوئی ہیں: (الف)۔ ان دونوں سے تطہیر نہیں ہوتی بعض روایات میں اس کی وضاحت ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہڈی اور گوبر کی خصوصیت نہیں بلکہ ہر وہ چیز جو تطہیر کے قابل نہ ہو، استنجا کے لیے بے کار ہے۔ لید کی نجاست تو ظاہر ہے۔ اس سے طہارت حاصل نہیں ہوتی بلکہ رطوبت کے ملنے سے اس کی نجاست دوچند ہوجائے گی۔ ہڈی سے بھی تطہیر کا مقصد حاصل نہیں ہوتا کیونکہ اس میں جذب کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ چکنی ہونے کی وجہ سے نجاست کا ازالہ نہیں کرسکتی۔ (ب)۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں جنات کی غذا ہیں۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے پاس جن آئےاور انھوں نے زاد سفر کی درخواست کی تو میں نے انھیں ہڈی اور گوبر کازاد دیا۔ وہ انھیں کھاتے نہیں بلکہ ان پر گوشت اور چارہ پیدا کر دیا جاتا ہے، یعنی ان کے ساتھ جنات کی غذا کا تعلق ہے۔ آپ نے اس لیے منع فرمایا تاکہ انھیں استنجا سے خراب نہ کیاجائے۔ (فتح الباري: 336/1) بعض روایات میں ہے کہ جنات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپ اپنی اُمت کو فرما دیں کہ وہ ہڈی، گوبر اور کوئلے سے استنجا نہ کیا کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں میں ہمارے لیے غذا رکھی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ استنجا میں مطعومات کا استعمال درست نہیں ہے اور یہ غذا کے احترام کی وجہ سے ہے لہٰذا ہر وہ چیز جو کسی بھی حیثیت سے قابل احترام ہو، استنجا میں استعمال نہیں ہوگی۔ الغرض ہر وہ غیر محترم پاک چیز جو نجاست کے ازالے کی صلاحیت رکھتی ہو، استنجا کے لیے استعمال ہوسکتی ہے اور جس چیز میں جذب کی صلاحیت نہ ہو خواہ وہ بے ضرر ہو اور قابل احترام بھی ہو، اسے استنجا کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا، جیسے شیشہ وغیرہ کیونکہ اس سے نجاست کا ازالہ نہیں ہوتا۔ (فتح الباري: 336/1) 4۔ خدام کی تین اقسام ہیں: (الف)۔ وہ خدام جو اپنے مخدومین کے رمز شناس ہوں اور ان کے کہنے کے بغیر ہی اپنے آقاؤں کی ضروریات کا خیال رکھتے ہوں۔ (ب)۔ وہ خدام جب انھیں اپنے مخدوم کی خدمت کا کہا جائے تو اس کی بجا آوری کو اپنے لیے سعادت مندی خیال کرتے ہوں۔ (ج)۔ وہ خدام جو کہنے کے باوجود اس کی بجا آوری میں سست روی کا مظاہرہ کریں۔عام طور پر مساجد کے خدام اسی طرح کے ہوتے ہیں۔ بقول شخصے، زمین جنبد نہ جنبد گل محمد۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدام آپ کی خدمت میں پیش پیش رہنے کو اپنی سعادت خیال کرتے تھے اور آپ کے سامان طہارت کو قبل از استعمال تیار رکھتے تھے تاکہ آپ کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن محمد المکی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن یحییٰ بن سعید بن عمرو المکی نے اپنے دادا کے واسطے سے بیان کیا۔ وہ ابوہریرہ ؓ سے نقل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ (ایک مرتبہ) رفع حاجت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ (چلتے وقت) ادھر ادھر نہیں دیکھا کرتے تھے۔ تو میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے آپ ﷺ کے قریب پہنچ گیا۔ (مجھے دیکھ کر) آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے پتھر ڈھونڈ دو، تا کہ میں ان سے پاکی حاصل کروں، یا اسی جیسا (کوئی لفظ) فرمایا اور فرمایا کہ ہڈی اور گوبر نہ لانا۔ چنانچہ میں اپنے دامن میں پتھر (بھر کر) آپ کے پاس لے گیا اور آپ کے پہلو میں رکھ دئیے اور آپ کے پاس سے ہٹ گیا، جب آپ (قضاء حاجت سے) فارغ ہوئے تو آپ نے پتھروں سے استنجاء کیا۔
حدیث حاشیہ:
ہڈی اور گوبر سے استنجاء کرناجائز نہیں۔ گوبر اور ہڈی جنوں کی خوراک ہیں۔ جیسا کہ ابن مسعود کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا گوبر اور ہڈی سے استنجاء نہ کرو، یہ تمہارے بھائی جنوں کا توشہ ہیں۔ (رواہ ابوداؤد والترمذی) معلوم ہوا کہ ڈھیلوں سے بھی پاکی حاصل ہو جاتی ہے۔ مگر پانی سے مزید پاکی حاصل کرنا افضل ہے۔ (دیکھو حدیث: 152) آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ پانی سے استنجاءکرنے کے بعد آپ ہاتھوں کو مٹی سے رگڑ رگڑ کر دھویا کرتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): I followed the Prophet (ﷺ) while he was going out to answer the call of nature. He used not to look this way or that. So, when I approached near him he said to me, "Fetch for me some stones for ' cleaning the privates parts (or said something similar), and do not bring a bone or a piece of dung." So I brought the stones in the corner of my garment and placed them by his side and I then went away from him. When he finished (from answering the call of nature) he used, them.