Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: To enter Makkah by day or by night)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
نسخہ مطبوعہ مصر میں اس کے بعد اتنی عبارت زیادہ ہے۔ بات النبی ﷺبذی طویٰ حتی اصبح ثم دخل مکۃ یعنی آپ رات کو ذی طویٰ میں رہ گئے صبح تک پھر مکہ میں داخل ہوئے۔ ترجمہ باب میں رات کو بھی داخل ہونا مذکورہے۔ لیکن کوئی حدیث اس مضمون کی امام بخاری نہیں لائے۔ اصحاب سنن نے روایت کیا کہ آپ جعرانہ کے عمرہ میں مکہ میں رات کو داخل ہوئے اور شاید امام بخاری نے اس طرف اشارہ کیا۔ بعضوں نے یوں جواب دیا کہ ذی طویٰ خود مکہ ہے اور آپ شام کو وہاں پہنچے تھے۔ تو اس سے رات کو داخل ہونے کا جواز نکل آیا۔ بہرحال رات ہو یادن دونوں میں داخلہ جائز ہے۔
حافظ صاحب فرماتے ہیں: واما الدخول لیلا فلم یقع منہ صلی اللہ علیہ وسلم الا فی عمرۃ الجعرانۃ فان صﷺاحرم من الجعرانۃ ودخل مکۃ لیلا فقضی امر العمرۃ ثم رجع لیلا فاصبح بالجعرانۃ کبائت کما رواہ اصحاب السنن الثلاثۃ من حدیث معرش الکعبی وترجم علیہ النسائی دخول مکۃ لیلا وروی سعد بن منصور عن ابراہیم النخعی قال کانو یستحبون ان یدخلوامکۃ نہارا ویخرجوا منہا لیلاواخرج عن عطاءان شئتم فاد خلوا لیلاانکم لستم کر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ کان امام فاحبِ ان یدخلہا نہا رالیراہ الناس انتہی وقضیۃ ہذا من کان اماما یقتدی بہ استحب لہ ان یدخلہا نہارا۔ یعنی آنحضرت ﷺکا مکہ شریف میں رات کو داخل ہونا یہ صرف عمرہ جعرانہ میں ثابت ہے جب کہ آپ نے جعرانہ سے احرام باندھا اور رات کو آپ مکہ شریف میں داخل ہوئے اور اسی وقت عمرہ کر کے رات ہی کو واپس ہوگئے اور صبح آپ نے جعرانہ ہی میں کی۔ گویا آپ نے ساری رات یہیں گزاری ہے جیساکہ اصحاب سنن ثلاثہ نے روایت کیاہے۔ بلکہ امام نسائی نے اس پر باب باندھا کہ مکہ میں رات کو داخل ہونا اور ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ وہ مکہ شریف میں دن کو داخل ہونا مستحب گردانتے تھے اور رات کو واپس ہونا اور عطا ءنے کہا کہ اگر تم چاہو رات کو داخل ہوجاؤ تم رسول اللہ ﷺجیسے نہیں ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم آپ امام اور مقتدیٰ تھے، آپ نے اسی کو پسند فرمایا کہ دن میں داخل ہوں اور لوگ آپ کو دیکھ کر مطمئن ہوں۔ خلاصہ یہ کہ جو کوئی بھی امام ہو اس کے ئے یہی مناسب ہے کہ دن میں مکہ شریف میں داخل ہو
1591.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے وادی ذی طویٰ میں رات بسر کی۔ صبح تک آپ نے وہیں قیام فرمایا پھر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ راوی حدیث کہتا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ بھی اسی طرح کرتے تھے۔
تشریح:
(1) وادی ذی طویٰ مکہ مکرمہ کے قریب ایک مشہور مقام ہے۔ رسول اللہ ﷺ جب حج کرنے کے لیے تشریف لائے تو رات اسی وادی میں بسر فرمائی، صبح کی نماز کے بعد مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ دن کے وقت مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تھے جبکہ عنوان میں رات کے وقت داخل ہونے کا بھی ذکر ہے۔ دراصل امام بخاری ؒ نے اپنے عنوان سے اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کے رات کے وقت مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کا ذکر ہے، چنانچہ عمرہ جعرانه میں آپ رات کے وقت مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تھے اور اسی وقت عمرہ کر کے رات ہی کو واپس تشریف لے گئے تھے۔ اور اس حدیث پر امام نسائی ؒ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: (دخول مكة ليلا)’’مکہ مکرمہ میں رات کے وقت داخل ہونا۔‘‘ (2) رسول اللہ ﷺ امام و مقتدیٰ تھے اور آپ کے اعمال و افعال لوگوں کے لیے نمونہ تھے، اس لیے حجۃ الوداع کے موقع پر آپ دن کے وقت داخل ہوئے تاکہ لوگ آپ کے اعمال حج کو دیکھیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایسا ہے جو لوگوں کے لیے نمونے کی حیثیت رکھتا ہے تو اسے دن کے وقت مکہ مکرمہ داخل ہونا بہتر ہے تاکہ ریا کاری اور نمود ونمائش سے احتراز ہو۔ (فتح الباری:550/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1533
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1574
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1574
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1574
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
برصغیر پاک و ہند کے متداول نسخوں میں مذکور عبارت نہیں ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ ہمارے نزدیک اس عبارت کا حذف ہونا بہتر ہے۔
نسخہ مطبوعہ مصر میں اس کے بعد اتنی عبارت زیادہ ہے۔ بات النبی ﷺبذی طویٰ حتی اصبح ثم دخل مکۃ یعنی آپ رات کو ذی طویٰ میں رہ گئے صبح تک پھر مکہ میں داخل ہوئے۔ ترجمہ باب میں رات کو بھی داخل ہونا مذکورہے۔ لیکن کوئی حدیث اس مضمون کی امام بخاری نہیں لائے۔ اصحاب سنن نے روایت کیا کہ آپ جعرانہ کے عمرہ میں مکہ میں رات کو داخل ہوئے اور شاید امام بخاری نے اس طرف اشارہ کیا۔ بعضوں نے یوں جواب دیا کہ ذی طویٰ خود مکہ ہے اور آپ شام کو وہاں پہنچے تھے۔ تو اس سے رات کو داخل ہونے کا جواز نکل آیا۔ بہرحال رات ہو یادن دونوں میں داخلہ جائز ہے۔
حافظ صاحب فرماتے ہیں: واما الدخول لیلا فلم یقع منہ صلی اللہ علیہ وسلم الا فی عمرۃ الجعرانۃ فان صﷺاحرم من الجعرانۃ ودخل مکۃ لیلا فقضی امر العمرۃ ثم رجع لیلا فاصبح بالجعرانۃ کبائت کما رواہ اصحاب السنن الثلاثۃ من حدیث معرش الکعبی وترجم علیہ النسائی دخول مکۃ لیلا وروی سعد بن منصور عن ابراہیم النخعی قال کانو یستحبون ان یدخلوامکۃ نہارا ویخرجوا منہا لیلاواخرج عن عطاءان شئتم فاد خلوا لیلاانکم لستم کر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ کان امام فاحبِ ان یدخلہا نہا رالیراہ الناس انتہی وقضیۃ ہذا من کان اماما یقتدی بہ استحب لہ ان یدخلہا نہارا۔ یعنی آنحضرت ﷺکا مکہ شریف میں رات کو داخل ہونا یہ صرف عمرہ جعرانہ میں ثابت ہے جب کہ آپ نے جعرانہ سے احرام باندھا اور رات کو آپ مکہ شریف میں داخل ہوئے اور اسی وقت عمرہ کر کے رات ہی کو واپس ہوگئے اور صبح آپ نے جعرانہ ہی میں کی۔ گویا آپ نے ساری رات یہیں گزاری ہے جیساکہ اصحاب سنن ثلاثہ نے روایت کیاہے۔ بلکہ امام نسائی نے اس پر باب باندھا کہ مکہ میں رات کو داخل ہونا اور ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ وہ مکہ شریف میں دن کو داخل ہونا مستحب گردانتے تھے اور رات کو واپس ہونا اور عطا ءنے کہا کہ اگر تم چاہو رات کو داخل ہوجاؤ تم رسول اللہ ﷺجیسے نہیں ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم آپ امام اور مقتدیٰ تھے، آپ نے اسی کو پسند فرمایا کہ دن میں داخل ہوں اور لوگ آپ کو دیکھ کر مطمئن ہوں۔ خلاصہ یہ کہ جو کوئی بھی امام ہو اس کے ئے یہی مناسب ہے کہ دن میں مکہ شریف میں داخل ہو
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے وادی ذی طویٰ میں رات بسر کی۔ صبح تک آپ نے وہیں قیام فرمایا پھر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ راوی حدیث کہتا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ بھی اسی طرح کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) وادی ذی طویٰ مکہ مکرمہ کے قریب ایک مشہور مقام ہے۔ رسول اللہ ﷺ جب حج کرنے کے لیے تشریف لائے تو رات اسی وادی میں بسر فرمائی، صبح کی نماز کے بعد مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ دن کے وقت مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تھے جبکہ عنوان میں رات کے وقت داخل ہونے کا بھی ذکر ہے۔ دراصل امام بخاری ؒ نے اپنے عنوان سے اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کے رات کے وقت مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کا ذکر ہے، چنانچہ عمرہ جعرانه میں آپ رات کے وقت مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تھے اور اسی وقت عمرہ کر کے رات ہی کو واپس تشریف لے گئے تھے۔ اور اس حدیث پر امام نسائی ؒ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: (دخول مكة ليلا)’’مکہ مکرمہ میں رات کے وقت داخل ہونا۔‘‘ (2) رسول اللہ ﷺ امام و مقتدیٰ تھے اور آپ کے اعمال و افعال لوگوں کے لیے نمونہ تھے، اس لیے حجۃ الوداع کے موقع پر آپ دن کے وقت داخل ہوئے تاکہ لوگ آپ کے اعمال حج کو دیکھیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایسا ہے جو لوگوں کے لیے نمونے کی حیثیت رکھتا ہے تو اسے دن کے وقت مکہ مکرمہ داخل ہونا بہتر ہے تاکہ ریا کاری اور نمود ونمائش سے احتراز ہو۔ (فتح الباری:550/3)
ترجمۃ الباب:
نبی کریم ﷺنے ذی طویٰ میں رات بسر کی اور صبح تک وہیں رہے، پھر مکہ میں داخل ہوئے۔ حضرت ابن عمر ؓ بھی اسی طرح کرتےتھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہو ں نے کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، انہو ں نے کہا کہ ہم سے عبید اللہ عمری نے بیان کیا، ان سے نافع نے ابن عمر ؓ سے بیان کیا، آپ ؓ نے فرمایا کہ کہ نبی کریم ﷺ نے ذی طویٰ میں رات گزاری۔ پھر جب صبح ہوئی تو آپ مکہ میں داخل ہوئے۔ ابن عمر ؓ بھی اسی طرح کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Nafi (RA): ' Ibn 'Umar (RA) said, "The Prophet (ﷺ) passed the night at Dhi-Tuwa till it was dawn and then he entered Makkah." Ibn 'Umar (RA) used to do the same.