تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اپنی طرف سے کوئی عنوان قائم کرنے کے بجائے قرآنی آیت ہی کو عنوان کے لیے منتخب کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے بقا کا ذریعہ بنایا ہے۔ (2) ہمارے نزدیک (قِيَامًا لِّلنَّاسِ) کے تین مطلب ہو سکتے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ الناس سے مراد مکہ اور اس کے اردگرد کے لوگ لیے جائیں۔ اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اس بے آب و گیاہ وادی میں کعبہ کا وجود مکہ اور آس پاس کے تمام لوگوں کی معاش کا ذریعہ ہے۔ اقصائے عالم سے آنے والے لوگوں کو قیام و طعام اور نقل و حرکت کی خدمات مہیا کرنے کے عوض انہیں اس قدر آمدنی ہو جاتی ہے جسے وہ ہر سال بھر استعمال کرتے رہتے ہیں۔ ٭ الناس سے مراد صرف عرب کے لوگ ہیں۔ یہ لوگ حرمت والے مہینوں میں بڑی آزادی سے سفر کرتے ہیں۔ کعبہ پورے ملک کی تمدنی اور معاشی زندگی کا سہارا بنا ہوا ہے۔ ٭ الناس سے مراد اس دور سے لے کر قیامت تک آنے والے لوگ لیے جائیں۔ اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ کعبہ کا وجود تمام دنیا کے لیے قیام اور بقا کا باعث ہے۔ دنیا کا وجود اس وقت تک قائم رہے گا جب تک کعبہ اور اس کا احترام کرنے والی مخلوق موجود ہے۔ جب اللہ کو منظور ہو گا کہ یہ کارخانہ عالم ختم کر دیا جائے تو اس وقت بیت اللہ کو اٹھا لیا جائے گا۔ امام بخاری ؒ نے اس آخری معنی کو ترجیح دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس کے تحت حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی وہ حدیث بیان کی ہے جس میں ایک حبشی کے ہاتھوں انہدام کعبہ کا ذکر ہے۔ (3) اس سے ضمنا یہ بھی معلوم ہوا کہ اس حبشی کے ناپاک عمل سے پہلے کوئی مضبوط اور طاقتور دشمن کعبہ کو منہدم نہیں کر سکے گا اور اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکے گا جیسا کہ اصحاب الفیل کا واقعہ اس کے لیے شاہد عدل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسے ہی اللہ تعالیٰ ہر اس شخص، قوم یا حکومت کو ہلاک کر دے گا جو تخریب کعبہ کی مذموم حرکت کرے گا۔