Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: Sweetness (delight) of faith)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
16.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہو جائیں اس نے ایمان کی شیرینی کو پا لیا۔ ایک یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں اور جس شخص سے بھی محبت رکھے محض اللہ کے لیے محبت رکھے اور وہ کفر میں لوٹ جانے کو ایسا برا خیال کرے جیسا کہ آگ میں گرائے جانے کو برا سمجھتا ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ حلاوت ایمان کی صورت یہ ہے کہ عبادت اور نیکی میں لذت اورسرورآئے، دینی معاملات میں مشقت برداشت کرنا آسان ہوجائے اور اموردین کو دنیاوی سازوسامان پر ترجیح دے۔ (فتح الباري: 85/1) 2۔ اس حدیث میں ایمان کے لیے لفظ حلاوت بطور استعارہ استعمال فرما کر مومن کی ایمانی کیفیت کو میٹھی چیز سے تشبیہ دی ہے جیسا کہ شہد ہوتا ہے، اس میں مٹھاس اور اندرونی امراض کا علاج بھی ہے، اسی طرح ایمان میں لذت بھی ہے اور شفا بھی۔ جب ایمان کے لیے حلاوت ثابت ہوگئی تو ظاہر ہے کہ مٹھاس کسی کو کم اور کسی کو زیادہ محسوس ہوتی ہے، صفراوی مریض کومٹھاس کا احساس کم ہوتا ہے بلکہ اسے میٹھی چیز کڑوی محسوس ہوتی ہے۔ اور اس کے مقابلے میں تندرست کو مٹھاس کی لذت کا ادراک ہوگا۔ اسی طرح اگر کسی کو ایمان میں حلاوت کا احساس نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معاصی کا صفراء اس کے مزاج پر غالب آچکا ہے۔ بس اس لذت کی کمی بیشی سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایمان کی کمی بیشی اور ایمان پر اعمال کے اثر انداز ہونے کو ثابت کیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کا استدلال نہایت واضح اور قوی ہے۔ (فتح الباري: 84/1) 3۔ اس حدیث میں تین چیزیں بیان ہوئی ہیں: پہلے اللہ کی محبت، وہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ منعم حقیقی ہے اور اس کے رسول کی محبت، وہ اس بنا پر کہ اللہ کے رسول محسن حقیقی ہیں۔ جب اللہ اور اس کے رسول کو محبت کا یہ درجہ حاصل ہوگیا تودوسری چیز یہ ہے کہ مخلوقات میں جس سے محبت ہو وہ لوجہ اللہ ہو۔ اس میں ضرررسانی کے جذبات یکسر ختم ہوجائیں۔ جب انسان اس درجے تک پہنچ جائے تو اسے محبوب کی ناپسندیدہ باتوں سے انتہائی نفرت ہونی چاہیے۔ تیسری چیز یہ ہے کہ اسے کفر سے اس قدر نفرت ہو کہ اس کے لیے آگ میں گرنا کفر اختیار کرنے سے آسان ہو۔ 4۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان صرف ان پانچ چیزوں میں منحصر نہیں جو پہلے بیان ہوئی ہیں بلکہ اس کی تکمیل کے لیے ان چیزوں کو اختیار کرنا ہو گا جو اس حدیث میں بیان ہوئی ہیں۔ یہ بھی ایک مستقل شعبہ ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مومن کو حلاوت ایمان پیدا کرنے کے لیے ان خصائل کو اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے جو اس حدیث میں مذکورہ ہیں۔ اس حدیث میں اشارہ ہے کہ نیکیوں سے خود کو آراستہ کرنا اور برائیوں سے دوررہنا تکمیل ایمان کے لیے ضروری ہے۔ (شرح الکرماني: 101/1) 5۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’اس شخص (کی فضیلت) کا بیان جس نے مار پیٹ، قتل اور ذلت ورسوائی کو کفر پر ترجیح دی۔‘‘(صحیح البخاری، الإکراہ، حدیث: 6941) اگرچہ ایمان ایسی چیز نہیں جسے زبان سے چکھا جاسکے تاہم اس میں غیر مرئی مٹھاس اور لذت ہوتی ہے اور یہ اس شخص کو محسوس ہوتی ہے جو حدیث میں مذکور میعار پر پوراُتر آتا ہے۔ بعض اوقات تو یہ چاشنی اس حد تک محسوس ہوتی ہے کہ بندہ مومن ایمان پر اپنی جان قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہو جاتا ہے۔ اس کی علامت یہ ہے کہ اسے نیکی اور اطاعت کے کاموں میں لذت وفرحت محسوس ہوتی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
16
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
16
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
16
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
16
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
اس مقام پر مرجیہ کی تردید مقصود ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب کے تحت مذکور حدیث سے ایمان کی کمی،بیشی اور ایمان پر اعمال کے اثر انداز ہونےپر استدلال کیا ہے ،نیز یہ بھی بتایا ہے کہ حلاوت ایمان کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی محبت،اللہ والوں سے مخلصانہ تعلقات اور ایمان میں استقامت انتہائی ضروری ہے۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہو جائیں اس نے ایمان کی شیرینی کو پا لیا۔ ایک یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں اور جس شخص سے بھی محبت رکھے محض اللہ کے لیے محبت رکھے اور وہ کفر میں لوٹ جانے کو ایسا برا خیال کرے جیسا کہ آگ میں گرائے جانے کو برا سمجھتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ حلاوت ایمان کی صورت یہ ہے کہ عبادت اور نیکی میں لذت اورسرورآئے، دینی معاملات میں مشقت برداشت کرنا آسان ہوجائے اور اموردین کو دنیاوی سازوسامان پر ترجیح دے۔ (فتح الباري: 85/1) 2۔ اس حدیث میں ایمان کے لیے لفظ حلاوت بطور استعارہ استعمال فرما کر مومن کی ایمانی کیفیت کو میٹھی چیز سے تشبیہ دی ہے جیسا کہ شہد ہوتا ہے، اس میں مٹھاس اور اندرونی امراض کا علاج بھی ہے، اسی طرح ایمان میں لذت بھی ہے اور شفا بھی۔ جب ایمان کے لیے حلاوت ثابت ہوگئی تو ظاہر ہے کہ مٹھاس کسی کو کم اور کسی کو زیادہ محسوس ہوتی ہے، صفراوی مریض کومٹھاس کا احساس کم ہوتا ہے بلکہ اسے میٹھی چیز کڑوی محسوس ہوتی ہے۔ اور اس کے مقابلے میں تندرست کو مٹھاس کی لذت کا ادراک ہوگا۔ اسی طرح اگر کسی کو ایمان میں حلاوت کا احساس نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معاصی کا صفراء اس کے مزاج پر غالب آچکا ہے۔ بس اس لذت کی کمی بیشی سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایمان کی کمی بیشی اور ایمان پر اعمال کے اثر انداز ہونے کو ثابت کیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کا استدلال نہایت واضح اور قوی ہے۔ (فتح الباري: 84/1) 3۔ اس حدیث میں تین چیزیں بیان ہوئی ہیں: پہلے اللہ کی محبت، وہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ منعم حقیقی ہے اور اس کے رسول کی محبت، وہ اس بنا پر کہ اللہ کے رسول محسن حقیقی ہیں۔ جب اللہ اور اس کے رسول کو محبت کا یہ درجہ حاصل ہوگیا تودوسری چیز یہ ہے کہ مخلوقات میں جس سے محبت ہو وہ لوجہ اللہ ہو۔ اس میں ضرررسانی کے جذبات یکسر ختم ہوجائیں۔ جب انسان اس درجے تک پہنچ جائے تو اسے محبوب کی ناپسندیدہ باتوں سے انتہائی نفرت ہونی چاہیے۔ تیسری چیز یہ ہے کہ اسے کفر سے اس قدر نفرت ہو کہ اس کے لیے آگ میں گرنا کفر اختیار کرنے سے آسان ہو۔ 4۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان صرف ان پانچ چیزوں میں منحصر نہیں جو پہلے بیان ہوئی ہیں بلکہ اس کی تکمیل کے لیے ان چیزوں کو اختیار کرنا ہو گا جو اس حدیث میں بیان ہوئی ہیں۔ یہ بھی ایک مستقل شعبہ ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مومن کو حلاوت ایمان پیدا کرنے کے لیے ان خصائل کو اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے جو اس حدیث میں مذکورہ ہیں۔ اس حدیث میں اشارہ ہے کہ نیکیوں سے خود کو آراستہ کرنا اور برائیوں سے دوررہنا تکمیل ایمان کے لیے ضروری ہے۔ (شرح الکرماني: 101/1) 5۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’اس شخص (کی فضیلت) کا بیان جس نے مار پیٹ، قتل اور ذلت ورسوائی کو کفر پر ترجیح دی۔‘‘(صحیح البخاری، الإکراہ، حدیث: 6941) اگرچہ ایمان ایسی چیز نہیں جسے زبان سے چکھا جاسکے تاہم اس میں غیر مرئی مٹھاس اور لذت ہوتی ہے اور یہ اس شخص کو محسوس ہوتی ہے جو حدیث میں مذکور میعار پر پوراُتر آتا ہے۔ بعض اوقات تو یہ چاشنی اس حد تک محسوس ہوتی ہے کہ بندہ مومن ایمان پر اپنی جان قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہو جاتا ہے۔ اس کی علامت یہ ہے کہ اسے نیکی اور اطاعت کے کاموں میں لذت وفرحت محسوس ہوتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہمیں محمد بن مثنیٰ نے یہ حدیث بیان کی، ان کو عبدالوہاب ثقفی نے، ان کو ایوب نے، وہ ابوقلابہ سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت انس ؓ سے ناقل ہیں وہ نبی کریم ﷺ سے آپ نے فرمایا: ’’تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہو جائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا۔ اول یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بن جائیں، دوسرے یہ کہ وہ کسی انسان سے محض اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھے۔ تیسرے یہ کہ وہ کفر میں واپس لوٹنے کو ایسا برا جانے جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
یہاں بھی حضرت امام المحدثین نے مرجیہ اور ان کے کلی وجزوی ہم نواؤں کے عقائد فاسدہ پر ایک کاری ضرب لگائی ہے اور ایمان کی کمی وزیادتی اور ایمان پر اعمال کے اثرانداز ہونے کے سلسلے میں استدلال کیا ہے اور بتلایا ہے کہ ایمان کی حلاوت کے لیے اللہ ورسول کی حقیقی محبت، اللہ والوں کی محبت اور ایمان میں استقامت لازم ہے۔ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں: "وَفِي قَوْلِهِ حَلَاوَةُ الْإِيمَانِ اسْتِعَارَةٌ تَخْيِيلِيَّةٌ شَبَّهَ رَغْبَةَ الْمُؤْمِنَ فِي الْإِيمَانِ بِشَيْءٍ حُلْوٍ وَأَثْبَتَ لَهُ لَازِمَ ذَلِكَ الشَّيْءِ وَأَضَافَهُ إِلَيْهِ وَفِيهِ تَلْمِيحٌ إِلَى قِصَّةِ الْمَرِيضِ وَالصَّحِيحِ لِأَنَّ الْمَرِيضَ الصَّفْرَاوِيَّ يَجِدُ طَعْمَ الْعَسَلِ مُرًّا وَالصَّحِيحُ يَذُوقُ حَلَاوَتَهُ عَلَى مَا هِيَ عَلَيْهِ وَكُلَّمَا نَقَصَتِ الصِّحَّةُ شَيْئًا مَا نَقَصَ ذَوْقُهُ بِقَدْرِ ذَلِكَ فَكَانَتْ هَذِهِ الِاسْتِعَارَةُ مِنْ أَوْضَحِ مَا يُقَوِّي اسْتِدْلَالَ الْمُصَنِّفِ عَلَى الزِّيَادَةِ وَالنَّقْص". ’’یعنی ایمان کے لیے لفظ حلاوت بطوراستعارہ استعمال فرماکر مومن کی ایمانی رغبت کو میٹھی چیز کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور اس کے لازمہ کو ثابت کیا گیا ہے اور اسے اس کی طرف منسوب کیا اس میں مریض اور تندرست کی تشبیہ پر بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ صفراوی مریض شہد کو بھی چکھے گا تواسے کڑوا بتلائے گا اور تندرست اس کی مٹھاس کی لذت حاصل کرے گا۔ گویا جس طرح صحت خراب ہونے سے شہد کامزہ خراب معلوم ہونے لگتا ہے۔ اسی طرح معاصی کا صفرا جس کے مزاج پر غالب ہے، اسے ایمان کی حلاوت نصیب نہ ہوگی۔ ایمان کی کمی وزیادتی کو ثابت کرنے کے لیے مصنف کا یہ نہایت واضح اور قوی تراستدلال ہے۔‘‘ حدیث مذکورمیں حلاوت ایمان کے لیے تین خصلتیں پیش کی گئی ہیں۔ شیخ محی الدین فرماتے ہیں کہ یہ حدیث دین کی ایک اصل عظیم ہے۔ اس میں پہلی چیز اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو قرار دیا گیا ہے جس سے ایمانی محبت مراد ہے۔ اللہ کی محبت کا مطلب یہ کہ توحید الوہیت میں اسے وحده لا شريك له یقین کرکے عبادت کی جملہ اقسام صرف اس اکیلے کے لیے عمل میں لائی جائیں اور کسی بھی نبی، ولی، فرشتے، جن، بھوت، دیوی، دیوتا، انسان وغیرہ کو اس کی عبادت کے کاموں میں شریک نہ کیاجائے۔ کیونکہ کلمہ لا إله إلاالله کا یہی تقاضا ہے۔ جس کے متعلق حضرت علامہ نواب صدیق حسن خان صاحب اپنی کتاب ’’ الدین الخالص ‘‘ میں فرماتے ہیں: "وفي هذه الکلمة نفی و إثبات، نفی الألوهیة عما سوی اللہ تعالیٰ من المرسلین حتیٰ محمد ﷺ والملئکة حتی جبرئیل عليه السلام فضلا عن غیرهم من الأولیاء والصالحین وإثباتها له وحده لاحق فى ذالك لأحد من المقریبن إذا فهمت ذلك فتأمل هذه الألوهیة التی اثبتها کلها لنفسه المقدسة ونفی عن محمدوجبرئیل وغیرهما علیهم السلام أن یکون لهم مثقال حبة خردل منها." (الدین الخاص:ج1ص 182 ) ’’یعنی اس کلمہ طیبہ میں نفی اور اثبات ہے۔ اللہ پاک کی ذات مقدس کے سوا ہرچیز کے لیے الوہیت کی نفی ہے۔ حتیٰ کہ حضرت محمدﷺ وحضرت جبرئیلؑ کے لیے بھی نفی ہے۔ پھردیگر اولیاءوصلحاءکا توذکر ہی کیا ہے۔ الوہیت خالص اللہ پاک کے لیے ثابت ہے اور مقربین میں سے کسی کے لیے اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ جب تم نے یہ سمجھ لیا تو غور کرو کہ یہ الوہیت وہ ہے جس کو اللہ پاک نے خاص اپنی ہی ذات مقدسہ کے لیے ثابت کیا ہے اور اپنے ہرغیر حتیٰ کہ محمدوجبرئیلؑ تک سے اس کی نفی کی ہے، ان کے لیے ایک رائی کے دانہ برابر بھی الوہیت کا کوئی حصہ حاصل نہیں۔ پس حقیقی محبت الٰہی کا یہی مقام ہے جو لوگ اللہ کی الوہیت میں اس کی عبادت کے کاموں میں اولیاءصلحاءیاانبیاء و ملائکہ کوشریک کرتے ہیں۔‘‘ "ویظنون الله جعل نحوا من الخلق منزلة یرضی أن العامی یلتجئی إلیهم ویرجوهم ویخالفهم ویستغیث بهم ویستعین منهم بقضاءحوائجه واسعاف مرامه وانجاح مقامه ویجعلهم وسائط بینه وبین اللہ تعالیٰ هی الشرك الجلی الذی لایغفر الله تعالیٰ أبدا." ( حوالہ مذکور ) ’’اور گمان کرتے ہیں کہ اللہ نے اپنے خاص بندوں کو ایسا مقام دے رکھا ہے کہ عوام ان کی طرف پناہ ڈھونڈیں، ان سے اپنی مرادیں مانگیں، ان سے استعانت کریں اور قضائے حاجات کے لیے ان کو اللہ کے درمیان وسیلہ ٹھہرادیں۔ یہ وہ شرک جلی ہے جس کو اللہ پاک ہرگز ہرگز نہیں بخشے گا۔‘‘ ﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ ﴾ (النساء: 48) ’’یعنی بے شک اللہ شرک کو نہیں بخشے گا اس کے علاوہ جس گناہ کو چاہے بخش دے گا۔‘‘ ’’رسول‘‘ کی محبت سے ان کی اطاعت وفرمانبرداری مراد ہے اس کے بغیرمحبت رسول کا دعویٰ غلط ہے۔ نیز محبت رسول کا تقاضا ہے کہ آپ کا ہرفرمان بلندوبالا تسلیم کیاجائے۔ اور ا س کے مقابلہ پر کسی کا کوئی حکم نہ مانا جائے۔ پس جو لوگ صحیح احادیث مرفوعہ کی موجودگی میں اپنے مزعومہ اماموں کے اقوال کو مقدم رکھتے ہیں اور اللہ کے رسول کے فرمان کوٹھکرادیتے ہیں ان کے متعلق سیدالعلامہ حضرت نواب صدیق حسن خاں صاحب فرماتے ہیں: "تأمل في مقلدة المذاہب كيف اقرؤا علی أنفسهم بتقلید الأموات من العلماء والأولیاء واعترفوا بأن فهم الکتاب والسنة کان خاصا لهم واستدلوا لاشراکهم في الصلحاء بعبارات القوم ومکاشفات الشیوخ في النوم ورجحوا کلام الأمة والأئمة علی کلام الله تعالیٰ و رسوله علی بصیرة منهم وعلی علم فما ندري ما عذرهم عن ذلك غدا یوم الحساب والکتاب ومایحمیهم من ذلك العذاب والعقاب." ( الدین الخاص،ج: 1ص: 196) ’’یعنی مذاہب معلومہ کے مقلدین میں غور کرو کہ علماء و اولیاء جو دنیا سے رخصت ہوچکے، ان کی تقلید میں کس طور پر گرفتار ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن وحدیث کا سمجھنا ان ہی اماموں پر ختم ہوچکا، یہ خاص ان ہی کا کام تھا۔ صلحاءکو عبادت الٰہی میں شریک کرنے کے لیے عبارات قوم سے کتربیونت کرکے دلیل پکڑتے ہیں اور شیوخ کے مکاشفات سے جو ان کے خوابوں سے متعلق ہوتے ہیں اور امت اور ائمہ کے کلام کو اللہ و رسول کے کلام پر ترجیح دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ روش صحیح نہیں ہے۔ ہم نہیں جان سکتے کہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے یہ لوگ کیا عذر بیان کریں گے اور اس دن کے عذاب سے ان کو کون چیز نجات دلاسکے گی۔‘‘ الغرض اللہ و رسول کی محبت کا تقاضا یہی ہے جو اوپر بیان ہوا ورنہ صادق آئے گا۔
تعصي الرسول وأنت تزعم حبه هذا لعمري في القياس بديع
لو كان حبك صادقا لأطعته إن المحب لمن يحب مطيع
اس حدیث نبوی میں دوسری خصلت بھی بہت ہی اہم بیان کی گئی ہے کہ مومن کامل وہ ہے جس کی لوگوں سے محبت خاص اللہ کے لیے ہو اور دشمنی بھی خالص اللہ کے لیے ہو۔ نفسانی اغراض کا شائبہ بھی نہ ہو۔ جیسا کہ حضرت علی مرتضیٰ ؓ کی بابت مروی ہے کہ ایک کافر نے جس کی چھاتی پر آپ چڑھے ہوئے تھے آپ کے منہ پر تھوک دیا۔ تو آپ فوراً ہٹ کر اس کے قتل سے رک گئے اور یہ فرمایا کہ اب میرا یہ قتل کرنا اللہ کے لیے نہ ہوتا۔ بلکہ اس کے تھوکنے کی وجہ سے یہ اپنے نفس کے لیے ہوتا اور مؤمن صادق کا یہ شیوہ نہیں کہ اپنے نفس کے لیے کسی سے عداوت یامحبت رکھے۔ تیسری خصلت میں اسلام وایمان پر استقامت مراد ہے۔ حالات کتنے ہی ناسازگار ہوں ایک سچا مومن دولت ایمان کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ بلاشک جس میں یہ تینوں خصلتیں جمع ہوں گی اس نے درحقیقت ایمان کی لذت حاصل کی پھر وہ کسی حال میں بھی ایمان سے محرومی پسند نہ کرے گا اور مرتدہونے کے لیے کبھی بھی تیار نہ ہوسکے گا۔ خواہ وہ شہید کردیا جائے، اسلامی تاریخ کی ماضی وحال میں ایسی بہت ہی مثالیں موجود ہیں کہ بہت سے مخلص بندگان مسلمین نے جام شہادت پی لیا مگرارتداد کے لیے تیار نہ ہوئے۔ اللہ پاک ہر مسلمان مرد وعورت کے اندرایسی ہی استقامت پیدا فرمائے۔آمین ابونعیم نے مستخرج میں حسن بن سفیان عن محمد بن المثنیٰ کی روایت سے «ویکره أن یعود في الکفر» کے آگے بعد «إذانقذه الله» کے الفاظ زیادہ کئے ہیں۔خودامام بخاری قدس سرہ نے بھی دوسری سند سے ان لفظوں کا اضافہ نقل فرمایا ہے۔ جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ ان لفظوں کا ترجمہ یہ کہ وہ کفرمیں واپس جانا مکروہ سمجھے اس کے بعد کہ اللہ پاک نے اسے اس سے نکالا۔ مراد وہ لوگ ہیں جو پہلے کافرتھے بعد میں اللہ نے اس کو ایمان واسلام نصیب فرمایا۔ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں: "هذا الاسناد کله بصریون" یعنی اس سند میں سب کے سب بصری راوی واقع ہوئے ہیں۔ ایک اشکال اور ا س کا جواب: حدیث مذکورمیں «أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا» فرمایا گیا ہے۔ جس میں ضمیر تثنیہ "هما" میں اللہ اور رسول ہر دو کو جمع کردیا گیا ہے۔ یہ جمع کرنا اس حدیث سے ٹکراتا ہے جس میں ذکر ہے کہ کسی خطیب نے آنحضرت ﷺ کی موجودگی میں ایک خطبہ بایں الفاظ دیا تھا: "من یطع الله ورسوله فقد رشد ومن یعصهما." آپ ﷺنے یہ سن کر اظہارخفگی کے لیے فرمایا: "بئس الخطیب أنت." ’’یعنی تم اچھے خطیب نہیں ہو۔‘‘ آپ کی یہ خفگی یہاں ضمیر "هما" پر تھی جب کہ خطیب نے "یعصهما" کہہ دیا تھا۔اہل علم نے اس اشکال کے کئی جواب دئیے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ تعلیم اور خطبہ کے مواقع الگ الگ ہیں۔ حدیث ہذا میں آپﷺ نے بطور معلم اختصار وجامعیت کے پیش نظر یہاں "هما" ضمیراستعمال فرمائی اور خطیب نے خطبہ کے موقع پر جب کہ تفصیل و تطویل کا موقع تھا۔ اختصار کے لیے "هما" ضمیر استعمال کی جو بہتر نہ تھی۔ اس لیے آپ ﷺ نے اس پر خفگی فرمائی۔ کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ حدیث مذکور میں مقام محبت میں ہردو کو جمع کیا گیا ہے جو بالکل درست ہے کیونکہ اللہ ورسول کی محبت لازم وملزوم، ہردو کی محبت جمع ہوگئی تونجات ہوگئی اور ایمان کا مدار ہردو کی محبت پر ہے اور خطیب مذکور نے معصیت کے معاملہ میں دونوں کوجمع کر دیا تھا جس سے وہم پیدا ہوسکتا تھا کہ ہردو کی معصیت نقصان کا باعث ہے اور اگرکسی نے ایک کی اطاعت کی اور ایک کی نافرمانی تو یہ موجب نقصان نہیں حالانکہ ایسا خیال بالکل غلط ہے۔ اس لیے کہ اللہ کی اطاعت نہ کرنا بھی گمراہی اور رسول کی نافرمانی بھی گمراہی، اس لیے وہاں الگ الگ بیان ضروری تھا، اسی وجہ سے آپ ﷺنے تنبیہ فرمائی کہ تم کو خطبہ دینا نہیں آتا۔ امام طحاوی نے ’’مشکل الآثار‘‘ میں یوں لکھا ہے کہ خطیب مذکور نے لفظ "ومن یعصهما" پر سکتہ کر دیا تھا اور ٹھہر کربعد میں کہا "فقدغوی" اس سے ترجمہ یہ ہوگیا تھا کہ جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے تونیک ہے اور جونافرمانی کرے وہ بھی، اس طرز ادا سے بڑی بھاری غلطی کاامکان تھا۔ اس لیے آپ ﷺ نے اس خطیب کو تنبیہ فرمائی۔ حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ حدیث مذکورہ میں "مما سواهما" کے الفاظ استعمال کئے گئے۔ "ممن سواهما"نہیں فرمایاگیا، اس لیے کہ الفاظ سابقہ میں بطورعموم اہل عقل اور غیراہل عقل یعنی انسان، حیوان، جانور، نباتات، جمادات سب داخل ہیں۔ "ممن سواهما" کہنے میں خاص اہل عقل مراد ہوتے، اس لیے "سواهما" کے الفاظ استعمال کئے گئے اور اس میں اس پر بھی دلیل ہے کہ اس تنبیہ کے استعمال میں کوئی برائی نہیں۔ حدیث مذکورہ میں اس امر پر بھی اشارہ ہے کہ نیکیوں سے آراستہ ہونا اور برائیوں سے دور رہنا تکمیل ایمان کے لیے ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Whoever possesses the following three qualities will have the sweetness (delight) of faith: 1. The one to whom Allah and His Apostle (ﷺ) becomes dearer than anything else. 2. Who loves a person and he loves him only for Allah's sake. 3. Who hates to revert to Atheism (disbelief) as he hates to be thrown into the fire".