تشریح:
1۔ حلاوت ایمان کی صورت یہ ہے کہ عبادت اور نیکی میں لذت اورسرورآئے، دینی معاملات میں مشقت برداشت کرنا آسان ہوجائے اور اموردین کو دنیاوی سازوسامان پر ترجیح دے۔ (فتح الباري: 85/1)
2۔ اس حدیث میں ایمان کے لیے لفظ حلاوت بطور استعارہ استعمال فرما کر مومن کی ایمانی کیفیت کو میٹھی چیز سے تشبیہ دی ہے جیسا کہ شہد ہوتا ہے، اس میں مٹھاس اور اندرونی امراض کا علاج بھی ہے، اسی طرح ایمان میں لذت بھی ہے اور شفا بھی۔ جب ایمان کے لیے حلاوت ثابت ہوگئی تو ظاہر ہے کہ مٹھاس کسی کو کم اور کسی کو زیادہ محسوس ہوتی ہے، صفراوی مریض کومٹھاس کا احساس کم ہوتا ہے بلکہ اسے میٹھی چیز کڑوی محسوس ہوتی ہے۔ اور اس کے مقابلے میں تندرست کو مٹھاس کی لذت کا ادراک ہوگا۔ اسی طرح اگر کسی کو ایمان میں حلاوت کا احساس نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معاصی کا صفراء اس کے مزاج پر غالب آچکا ہے۔ بس اس لذت کی کمی بیشی سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایمان کی کمی بیشی اور ایمان پر اعمال کے اثر انداز ہونے کو ثابت کیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کا استدلال نہایت واضح اور قوی ہے۔ (فتح الباري: 84/1)
3۔ اس حدیث میں تین چیزیں بیان ہوئی ہیں: پہلے اللہ کی محبت، وہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ منعم حقیقی ہے اور اس کے رسول کی محبت، وہ اس بنا پر کہ اللہ کے رسول محسن حقیقی ہیں۔ جب اللہ اور اس کے رسول کو محبت کا یہ درجہ حاصل ہوگیا تودوسری چیز یہ ہے کہ مخلوقات میں جس سے محبت ہو وہ لوجہ اللہ ہو۔ اس میں ضرررسانی کے جذبات یکسر ختم ہوجائیں۔ جب انسان اس درجے تک پہنچ جائے تو اسے محبوب کی ناپسندیدہ باتوں سے انتہائی نفرت ہونی چاہیے۔ تیسری چیز یہ ہے کہ اسے کفر سے اس قدر نفرت ہو کہ اس کے لیے آگ میں گرنا کفر اختیار کرنے سے آسان ہو۔
4۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان صرف ان پانچ چیزوں میں منحصر نہیں جو پہلے بیان ہوئی ہیں بلکہ اس کی تکمیل کے لیے ان چیزوں کو اختیار کرنا ہو گا جو اس حدیث میں بیان ہوئی ہیں۔ یہ بھی ایک مستقل شعبہ ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مومن کو حلاوت ایمان پیدا کرنے کے لیے ان خصائل کو اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے جو اس حدیث میں مذکورہ ہیں۔ اس حدیث میں اشارہ ہے کہ نیکیوں سے خود کو آراستہ کرنا اور برائیوں سے دوررہنا تکمیل ایمان کے لیے ضروری ہے۔ (شرح الکرماني: 101/1)
5۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’اس شخص (کی فضیلت) کا بیان جس نے مار پیٹ، قتل اور ذلت ورسوائی کو کفر پر ترجیح دی۔‘‘(صحیح البخاری، الإکراہ، حدیث: 6941) اگرچہ ایمان ایسی چیز نہیں جسے زبان سے چکھا جاسکے تاہم اس میں غیر مرئی مٹھاس اور لذت ہوتی ہے اور یہ اس شخص کو محسوس ہوتی ہے جو حدیث میں مذکور میعار پر پوراُتر آتا ہے۔ بعض اوقات تو یہ چاشنی اس حد تک محسوس ہوتی ہے کہ بندہ مومن ایمان پر اپنی جان قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہو جاتا ہے۔ اس کی علامت یہ ہے کہ اسے نیکی اور اطاعت کے کاموں میں لذت وفرحت محسوس ہوتی ہے۔