باب:اس بارے میں کہ وضو میں ہر عضو کو دو دو بار دھونا بھی ثابت ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: The washing of the body parts twice while performing ablution)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
161.
حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اعضائے وضو کو دو، دو بار دھویا۔
تشریح:
1۔ ابن عیینہ نے بیان کیا ہے کہ راوی حدیث ہی عبد اللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جنھوں نے حدیث اذان کو بیان کیا ہے لیکن یہ بات صحیح نہیں کیونکہ وہ عبد اللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبیلہ بنو حارثہ سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ عبد اللہ بن زید بن عاصم انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبیلہ بنو مازن سے متعلق ہیں البتہ دونوں خزرجی ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خود اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ (صحیح البخاري، الإستقاء، حدیث: 1012) راوی حدیث سے کتب حدیث میں 42 احادیث مروی ہیں جبکہ صاحب اذان سے حدیث اذان کے علاوہ کوئی حدیث مروی نہیں۔ (عمدۃ القاري: 356/2) 2۔ اعضاء کا دو، دو مرتبہ دھونا سنت کا دوسرا درجہ ہے اور ایسا کرنا حدیث سے ثابت ہے۔ اگرچہ اس پر اعتراض کیا گیا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خود بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا کلی اور ناک میں تین تین مرتبہ پانی ڈالا اور چہرے کو بھی تین مرتبہ دھویا پھر کلائیوں کو کہنیوں تک دو دو مرتبہ دھویا۔(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 191) لہٰذا باب اس طرح ہونا چاہیے تھا کہ وضو کرتے وقت بعض اعضاء دو، دو مرتبہ اور بعض کو تین، تین دفعہ دھونے کا بیان، لیکن اس اعتراض کی کوئی حقیقت نہیں کیونکہ راوی حدیث اپنا مشاہدہ بیان کر رہا ہے کہ انھوں نے ایک شاگرد (عباد بن تمیم) کو ایک، ایک مرتبہ دھونے کا مشاہدہ بیان فرمایا اور دوسرے شاگرد(یحییٰ المازنی) کو دودو یا تین تین دفعہ دھونے کا ذکر کردیا۔ (عمدۃ القاري: 436/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
160
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
158
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
158
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
158
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اعضائے وضو کو دو، دو بار دھویا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ابن عیینہ نے بیان کیا ہے کہ راوی حدیث ہی عبد اللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جنھوں نے حدیث اذان کو بیان کیا ہے لیکن یہ بات صحیح نہیں کیونکہ وہ عبد اللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبیلہ بنو حارثہ سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ عبد اللہ بن زید بن عاصم انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبیلہ بنو مازن سے متعلق ہیں البتہ دونوں خزرجی ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خود اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ (صحیح البخاري، الإستقاء، حدیث: 1012) راوی حدیث سے کتب حدیث میں 42 احادیث مروی ہیں جبکہ صاحب اذان سے حدیث اذان کے علاوہ کوئی حدیث مروی نہیں۔ (عمدۃ القاري: 356/2) 2۔ اعضاء کا دو، دو مرتبہ دھونا سنت کا دوسرا درجہ ہے اور ایسا کرنا حدیث سے ثابت ہے۔ اگرچہ اس پر اعتراض کیا گیا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خود بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا کلی اور ناک میں تین تین مرتبہ پانی ڈالا اور چہرے کو بھی تین مرتبہ دھویا پھر کلائیوں کو کہنیوں تک دو دو مرتبہ دھویا۔(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 191) لہٰذا باب اس طرح ہونا چاہیے تھا کہ وضو کرتے وقت بعض اعضاء دو، دو مرتبہ اور بعض کو تین، تین دفعہ دھونے کا بیان، لیکن اس اعتراض کی کوئی حقیقت نہیں کیونکہ راوی حدیث اپنا مشاہدہ بیان کر رہا ہے کہ انھوں نے ایک شاگرد (عباد بن تمیم) کو ایک، ایک مرتبہ دھونے کا مشاہدہ بیان فرمایا اور دوسرے شاگرد(یحییٰ المازنی) کو دودو یا تین تین دفعہ دھونے کا ذکر کردیا۔ (عمدۃ القاري: 436/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حسین بن عیسیٰ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے یونس بن محمد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے فلیح بن سلیمان نے عبداللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم کے واسطے سے بیان کیا، وہ عباد بن تمیم سے نقل کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن زید ؓ کے واسطے سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے وضو میں اعضاء کو دو دو بار دھویا۔
حدیث حاشیہ:
دو دو بار دھونے سے بھی وضو ہو جاتا ہے یہ بھی سنت ہے مگر تین تین بار دھونا زیادہ افضل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Zaid: The Prophet (ﷺ) performed ablution by washing the body parts twice.