تشریح:
1۔ روایات سے ثابت ہے کہ شیطان خیشوم (نتھنوں) میں بیٹھ کر فاسد اثرات دماغ پر ڈالتا ہے۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3295) اس سے معلوم ہوا کہ ناک شیطان کی نشست گاہ ہے۔ وہ اسے اپنی آماجگاہ اس لیے بناتا ہے کہ ایک طرف تو غباراڑاڑ کر اس میں پہنچتا ہے دوسری طرف دماغ کی فاسد رطوبات بھی اسی جگہ جمع ہوتی ہیں گویا ناک میں اندر اور باہر دونوں طرف سے گندگی جمع ہوتی رہتی ہے اور شیطان کو گندگی سے خاص مناسبت ہے، اس لیے اسے صاف کرنے کا حکم ہے نیز اگر فاسد رطوبات ناک میں جمع رہیں تو سانس لینے اور قراءت کرنے میں بھی تکلف ہوتا ہے خاص طور پرغنے کی ادائیگی تو خیشوم سے ہوتی ہے، اس لیے اسے صاف کرنا ضروری ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ اسے واجب خیال کرتے ہیں بظاہر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی ان کے ہم نوا ہیں نیز یہاں امر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے اور صیغہ امر میں وجوب ہوتا ہے الایہ کہ اس کے خلاف کوئی قرینہ آجائے۔ اگرچہ جمہور کے نزدیک یہ سنت ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی کو وضو کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا تھا۔’’وضو کر جیسا کہ تجھے اللہ نے حکم دیا ہے۔‘‘ اور آیت کریمہ میں ناک میں پانی ڈالنے اور اسے صاف کرنے کا حکم نہیں ہے لیکن یہ استدلال اس لیے محل نظر ہے کہ ایک لحاظ سے منہ اور ناک چہرے ہی کا حصہ ہیں جس کے دھونے کا اللہ نے حکم دیا ہے نیز حدیث میں اللہ کے حکم سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے جو اللہ کے حکم پر مبنی ہوتی ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ترک ثابت نہیں اگرچہ اس روایت میں تین دفعہ ناک صاف کرنے کا حکم نہیں ہے تاہم دیگر روایات میں اس کی صراحت ہے چنانچہ حدیث میں ہے کہ جب کوئی اپنی نیند سے بیدار ہو تو وضو کرتے وقت ناک کو تین دفعہ صاف کرے کیونکہ شیطان اس کے خیشوم میں شب باشی کرتا ہے۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3295) ناک صاف کرتے وقت بعض روایات میں طاق عدد کا لحاظ رکھنے کا حکم ہے۔ (مسند حمیدي، حدیث: 957) لیکن یہ حکم وجوب کے لیے نہیں ہے کیونکہ بعض روایات میں جفت عدد پراکتفا بھی ثابت ہے۔(سنن أبي داؤد، الطھارة، حدیث: 141)
2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ناک صاف کرنے کو کلی کرنے سے پہلے بیان فرمایا ہےاس کی وجہ یہ ہے کہ منہ کی نسبت ناک میں زیادہ تستر (پوشیدگی) ہے۔ گویا منہ ظاہر ہے اور ناک اس کا باطن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ظاہر کی صفائی بھی ضروری ہے لیکن باطن کی تطہیر زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ امام صاحب کے نزدیک وضو کرتے وقت اعضاء کے دھونے میں ترتیب ضروری نہیں اس لیے اسے مقدم کیا ہے لیکن یہ بات قرین قیاس معلوم نہیں ہوتی۔