تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کامقصود یہ ہے کہ جب استنجا کے لیے ڈھیلوں کا استعمال کیا جائے تو طاق عدد اختیار کرنا چاہیے نیز وہ بتانا چاہتےہیں کہ استجمار کے معنی استنجا میں ڈھیلوں کا استعمال ہی ہے۔ اس کا مطلب رمی جمار یا کفن کو دھونی دینا نہیں جیسا کہ بعض حضرات کا خیال ہے۔ (فتح الباري: 344/1)۔
2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے استنجا کے مسائل سے فراغت کے بعد وضو کے احکام شروع فرمائے تھے۔ اب انھوں نے دوبارہ استنجاء کے متعلق یہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جب کسی حدیث میں کوئی نئی چیز دیکھتے ہیں تو اس پر ایک عنوان قائم کردیتے ہیں اسے باب درباب کہا جاتا ہے چونکہ باب سابق جو وضو سے متعلق ہے اس کے تحت جو حدیث ذکر کی تھی اس میں یہ الفاظ تھے۔’’جو ڈھیلے سے استنجا کرے وہ طاق ڈھیلے لے۔‘‘بس انہی الفاظ کی مناسبت سے یہ عنوان قائم کردیا اگرچہ وضو سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے نیز اس طرف بھی اشارہ ہے کہ استنجا اور استنشار میں گندگی کی صفائی قدر مشترک ہے اس لحاظ سے طاق تعداد بھی مشترک ہونی چاہیے۔
3۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ عرب میں قضائے حاجت کے بعد مٹی کے ڈھیلے استعمال کرنے کا رواج تھا پھر رات سخت گرمی میں پسینہ آنے کے بعد محل نجاست پر بحالت نیند ہاتھ لگنے کا اندیشہ رہتا یا اس کے علاوہ جسم کے کسی ایسے مقام پر لگنے کا بھی احتمال ہے جو انسان کے لیے ناگواری کا باعث ہو۔ اس لیے نیند سے بیدار ہونے کے بعد ہاتھ برتن میں ڈالنے سے پہلے دھونے کا حکم دیا گیا ہے۔اس پر ایک اعتراض وارد ہوتا ہے کہ ہاتھوں کو دھونے کا حکم کیوں ہے؟ جبکہ سوئے ہوئے آدمی کے زیر استعمال کپڑے کے ملوث ہونے کے زیادہ خدشات ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کپڑوں کو پانی میں ڈالنے کی ضرورت پیش نہیں آتی اور پھر اگر کپڑا آلودہ ہو جائے تو اس کا نقصان صرف کپڑا پہننے والے تک محدود ہوتا ہے جبکہ ہاتھ پلید ہونے کی صورت میں پانی کے خراب ہونے کا خدشہ ہے جس سے دوسرے لوگ بھی متاثر ہوں گے۔ اس لیے ہاتھوں کو دھونے کا حکم دیا گیا ہے۔(فتح الباري: 347/1)