تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی طواف قدوم کے بعد اپنی مصروفیات کے پیش نظر وقوف عرفات سے پہلے بیت اللہ حاضری نہیں دیتا اور نہ نفل طواف ہی کرتا ہے تو اس پر کوئی قدغن نہیں۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ نفل طواف کرنے پر پابندی ہے کیونکہ آپ نے اس دوران میں طواف کرنے سے منع نہیں فرمایا۔ ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وقوف عرفات سے پہلے اس لیے طواف نہ کیا ہو مبادا لوگ اسے واجب خیال کریں جبکہ اسے واجب قرار دینے میں مشقت ہے۔ نفلی طواف کی فضیلت تمام اہل علم کے نزدیک مسلم ہے، البتہ امام مالک کا موقف ہے کہ حاجی کے لیے وقوف عرفات سے پہلے نفل طواف کرنا درست نہیں یہاں تک کہ وہ اپنا حج مکمل کرے۔ انہوں نے اس کے لیے مذکورہ حدیث بطور دلیل پیش کی ہے لیکن یہ موقف اس لیے محل نظر ہے کہ رسول اللہ ﷺ بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کرنے کے بعد وادی محصب چلے گئے جو کعبہ سے دور تھی، وہاں دوسرے کاموں میں مصروف ہونے کی وجہ سے فراغت حج تک کعبہ میں آنے اور طواف کرنے کی فرصت نہ ملی۔ (2) ہمارے نزدیک اس مسئلے میں وسعت ہے، لہذا جو شخص طواف قدوم کے بعد طواف کرنا چاہے وہ رات یا دن کے کسی حصے میں بھی طواف کر سکتا ہے، خصوصا دور دراز سے آنے والوں کے لیے تو طواف کرنا ہی بہتر ہے۔ واللہ أعلم