تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے حضرت ام سلمہ ؓ سے مروی حدیث کے دونوں طرق ایک ہی سیاق سے بیان کیے ہیں لیکن ان دونوں روایات کے الفاظ مختلف ہیں، چنانچہ پہلی روایت کے الفاظ حدیث: 1618 میں گزر چکے ہیں۔ (2) اس روایت سے معلوم ہوا کہ طواف کی دو رکعتیں مسجد سے باہر بھی جائز ہیں کیونکہ اگر ان کا مسجد حرام میں ادا کرنا لازم اور شرط ہوتا تو رسول اللہ ﷺ حضرت ام سلمہ ؓ کے عمل کو برقرار نہ رکھتے۔ (3) اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی شخص کی نماز طواف رہ جائے تو وہ حرم کے اندر اور باہر جہاں چاہے اس کی قضا دے سکتا ہے۔ جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے۔ امام مالک ؒ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی حدود حرم سے نکل کر اپنے وطن پہنچ گیا ہو اور نماز طواف نہ پڑھ سکا ہو تو اس پر دم واجب ہو گا۔ لیکن راجح موقف یہ ہے کہ ان کی حیثیت فرض نماز سے زیادہ نہیں۔ جب فرض نماز رہ جائے تو جہاں یاد آئے وہاں اسے پڑھ سکتا ہے تو صلاۃ طواف کے لیے بھی یہ قاعدہ ہو گا کہ جہاں یاد آئے اسے ادا کرے۔ (فتح الباري:615/3) البتہ انہیں مقام ابراہیم کے پیچھے ادا کرنا زیادہ فضیلت کا باعث ہے جیسا کہ آئندہ عنوان سے معلوم ہو گا۔