تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وضو کرتے وقت پاؤں کا وظیفہ انھیں دھونا ہے۔ ان پر مسح کرنا نہیں دلیل میں جو روایت پیش فرمائی ہے، اس میں وضاحت ہے کہ عصر کا وقت تنگ ہو رہا تھا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے پاؤں دھونے کے بجائے جلدی جلدی ان پر مسح کرنے لگے اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خشک ایڑیوں کے متعلق وعید سنائی کہ یہ ایڑیاں جہنم میں جائیں گی اگر پاؤں کا وظیفہ مسح ہوتا تو مسح کرتے وقت کسی کے نزدیک بھی استیعاب ضروری نہیں ہے، اس لیے اس قدر سخت وعید کی ضرورت نہ تھی کیونکہ وظیفہ تو ادا ہو چکا تھا لیکن چونکہ پاؤں کا وظیفہ دھونا ہے اور اس میں استیعاب (پورے پاؤں پر ہاتھ پھیرنا) ضروری ہے لہٰذا اس کوتاہی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں وعید شدید سنائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ خالی پاؤں کا دھونا ضروری ہے مسح کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ یہ استدلال اس صورت میں ہے کہ (تَمسَحُ) کے معنی حقیقی مسح کیا جائے لیکن اگر یہ معنی کیے جائیں کہ ہم اپنے ہاتھ پانی سے تر کر کے پاؤں پر پھیرنے لگے جس سے ایڑیوں کے کچھ حصے خشک رہ گئے تو بھی استدلال صحیح ہے کہ پاؤں کو اچھی طرح دھونا ہے اور اس میں استیعاب ہے یعنی ان کا کوئی حصہ بھی خشک نہ رہے۔
2۔ اس عنوان کو یہاں اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ پہلے باب میں استنثار کا بیان تھا کہ ناک میں پانی پہنچانا ضروری ہے کپڑے سے صاف کر لینا کافی نہیں کیونکہ ہم لوگ احکام شریعت کے پابند ہیں اپنی طرف سے ان میں کوئی ترمیم نہیں کر سکتے لہٰذا اگر شریعت نے کسی عضو کے متعلق غسل ضروری قرار دیا ہے تو ہمارے لیے جائز نہیں کہ ہم یہ سوچ کر کہ مقصود تو صفائی ہے لہٰذا دھونے کے بجائے کپڑے سے صفائی کر لیں ایسا کرنا جائز نہیں۔ جس طرح خالی پاؤں کو دھونا ضروری ہے اسی طرح ناک میں پانی ڈال کر اسے اچھی طرح صاف کرنا ضروری ہے نیز ناک بدن کی اعلیٰ جانب ہے اور پاؤں بدن کی نچلی جانب ہے اس لیے ناک کے بعد قدم کا وظیفہ بتایا گیا ہے۔
3۔ اس روایت سے شیعہ حضرات کی تردید ہوتی ہے کیونکہ ان کے نزدیک پاؤں کا وظیفہ غسل نہیں بلکہ مسح ہے اور وہ اس روایت کا یہ جواب دیتے ہیں کہ لوگوں کی ایڑیاں نجاست آلود تھیں اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دھونے کا حکم دیا لیکن ہمیں ان حضرات کی عقل و فکر پر حیرت ہوتی ہے۔ اگر ایک دو آدمیوں کی ایڑیاں نجاست آلود ہوتیں تو بات بن سکتی تھی کیا تمام حضرات کی ایڑیوں پر نجاست لگی ہوئی تھی اور انھیں اس کے دور کرنے کا خیال تک نہ آیا۔ حالانکہ نجاست کا ازالہ حدث کے ازالے سے زیادہ ضروری ہوتا ہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں پاک کرنے کا حکم نہیں فرمایا کہ تمھاری ایڑیاں نجاست آلود ہیں انھیں دھو کر پاک کرو۔ دراصل ان حضرات نے پورے دین کا ڈھانچہ از سر نو تشکیل دیا ہے اذان، اوقات نماز، طریقہ نماز، زکاۃ، الغرض ہر چیز الگ وضع کر رکھی ہے حتی کہ موجودہ قرآن کریم کے متعلق ان کے ہاں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔