باب:اس بارے میں کہ وضو میں ہر عضو کو تین تین بار دھونا(سنت ہے)
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: The washing of the parts thrice while performing ablution)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
163.
جناب حمران ہی سے روایت ہے کہ جب حضرت عثمان ؓ نے وضو کر لیا تو فرمایا: میں تمہیں ایک حدیث نہ سناؤں؟ اگر قرآن میں ایک آیت نہ ہوتی تو میں تمہیں وہ حدیث نہ سناتا۔ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’جو شخص اچھی طرح وضو کرے اور نماز پڑھے، تو جتنے گناہ اس نماز سے دوسری نماز تک ہوں گے، وہ بخش دیے جائیں گے۔‘‘ حضرت عروہ نے کہا: وہ آیت یہ ہے: ’’بےشک وہ لوگ جو ہماری نازل کردہ کھلی آیات اور ہدایت کو چھپاتے ہیں، اس کے بعد کہ ہم کتاب میں انہیں لوگوں کے لیے صاف بیان کر چکے ہیں، ان پر اللہ بھی لعنت بھیجتا ہے اور لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت کرتے ہیں۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اعضائے وضو کو تین تین بار دھونا بھی مستحب و مسنون ہے لیکن اس روایت میں ہاتھ اور چہرے کو تین تین دفعہ دھونے کا ذکر ہے لیکن کلی کے لیے منہ میں اور ناک میں پانی ڈالنے کے متعلق مرات کا ذکر نہیں لیکن چونکہ یہ دونوں چہرے میں شامل ہیں اور چہرے ہی کے باطن کے ساتھ ان کا تعلق ہے اس لیے ظاہر ہے کہ ان کا عمل بھی تین تین بار ہوگا۔ سر کے مسح کے ساتھ بھی مرات کا ذکر نہیں ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ آئندہ ایک مستقل عنوان قائم کر کے ثابت کریں گے کہ سر کا مسح ایک بار ہے۔ اگرچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عطاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابراہیم التیمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سر کا مسح تین دفعہ کرنا منقول ہے لیکن صحیح موقف یہی ہے کہ سر کا مسح ایک مرتبہ ہی ہے۔2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ابن شہاب زہری سے دو روایات نقل کی ہیں۔ دراصل امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کے دو استاذہیں: ایک حضرت عطاء بن ابی یزید جس میں ہے کہ وضو کے بعد اخلاص کے ساتھ دو رکعت ادا کرنے سے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ دوسرے استاذ حضرت عرو ہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جس میں وضو کے بعد مطلق طور پر نماز پڑھنے کا ذکر ہے اور اس میں ان گناہوں کی تحدید کی گئی ہے جو اس عمل مبارک سے معاف ہو جائیں گے یعنی جو اس نماز سے دوسری نماز تک ہوں گے نیز اس آخری روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن کریم کی ایک آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے۔یہ حدیث بیان فرمائی ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کا ذکر نہیں فرمایا البتہ حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آیت کریمہ کی نشاندہی فرمائی ہے۔ اس بنا پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ 1۔ اس حدیث میں معمولی سے عمل پر غیر معمولی اجر و ثواب کا وعدہ ہے ممکن ہے کہ کوئی سننے والا اسے مبالغہ یا کسی راوی کے سہوونسیان پر محمول کرے پھر میرے اس بیان کی تکذیب کر ڈالے جو دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہوگی اس اندیشہ تکذیب کے پیش نظر میں اسے بیان نہیں کرنا چاہتا لیکن قرآن کریم کی اس آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کرتا ہوں جس میں کتمان علم پر وعیدہے2۔اس عمل پر جو غیر معمولی اجرو ثواب کا وعدہ ہے اس پر انسان فریب اور دھوکے کے میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ اب گناہ معاف ہو گئے ہیں مزید کام کرنے کی ضرورت نہیں۔لوگوں کی اس فریب خوردگی بنا پر دل نہیں چاہتا کہ اسے بیان کروں لیکن مجھے کتمان علم کی وعید کا خوف ہے۔ اس لیے بیان کرتا ہوں ۔ اس اندیشے کا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرمایا ہے چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ بھی نقل فرمائے ہیں’’اس قدر اجرو ثواب ملنے پر دھوکے میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔‘‘(صحیح البخاری، الرقاق، حدیث: 6433)اس کا مطلب یہ ہے کہ سہل پسند لوگوں کو اس بات پر مطمئن نہیں ہونا چاہیے کہ پروانہ مغفرت ملنے کے بعد دیگر اعمال کی کیا ضرورت ہے؟بلکہ انہیں سوچنا چاہیے کہ جب اس معمولی کام پر اس قدر ثواب کی بشارت ہے تو بڑے بڑے کاموں کے بجالانے پر اللہ کی عنایات کا کیا عالم ہوگا۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ عمل خیر کی کوشش ہونی چاہیے، فریب نفس میں مبتلا ہو کر اعمال خیر کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔3۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے بعد جس آیت کا حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے:﴿إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ﴾"بے شک نیکیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہیں۔"(ھود11: 114)اس آیت کے پیش نظر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کا یہ مطلب ہوگا کہ مجھے تکذیب کے ڈر سے یہ بات ذکر نہیں کرنی چاہیے تھی لیکن قرآن کریم سے اس بیان کی تائید ہو رہی ہے کہ نیکیا ں کرنے سے برائیاں خود بخود ختم ہو جاتی ہیں۔ قرآن کریم کی اس تائید کے بعد مجھے خطرہ نہیں کہ یہ حدیث عوام الناس کے لیے کسی تردد کا باعث ہوگی۔(مؤطا امام مالک، الطهارة، حدیث: 160) 4۔پہلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وضو کے بعددو رکعت تحیۃ الوضو ہیں لیکن ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد تحیۃ المسجد ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص وضو کرنے کے بعد مسجد میں آئے اور دورکعت ادا کرے تو اس کے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔(صحیح البخاری، الرقاق، حدیث: 6433)لیکن اس بشارت کے لیے شرط یہ ہے کہ انھیں حضور قلب سے ادا کیا جائے دوران نماز میں خیالات منتشر نہ ہوں از خود خیالات کو دعوت نہ دی جائے۔اگر غیر اختیاری طور پر خیالات آرہے ہیں تو وہ چنداں نقصان دہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے از خود آنے والے خیالات و وساوس سے درگزر فرمایا ہے۔5۔فضائل اعمال کے سلسلے میں جہاں جہاں مغفرت کا ذکر ہے۔ اس سے مراد صغیرہ گناہوں کی معافی ہے، اس لیے کہ کبیرہ گناہ تو بہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شرک ، قتل ناحق اور زنا جیسے کبیرہ گناہوں کی سزابیان کرنے کے بعد ﴿إِلَّا مَن تَابَ﴾"مگر جو شخص ان میں سے توبہ کرے"سے استثنا ذکر کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کبیرہ گناہوں کی تلافی کے لیے توبہ ضروری ہے صغیرہ گناہوں کی تلافی کبیرہ گناہوں سے اجتناب کو قراردیا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ﴾"اگر تم ممنوعات کی بڑی بڑی باتوں سے اجتناب کرو گے تو ہم تمھارے صغیرہ گناہوں کو تم سے خود ہی معاف کردیں گے۔"(النساء4: 31)پھر اچھے کام کرنا از خود برائیوں کو مٹا دیتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ﴾"بے شک نیکیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہیں۔"(ھود11: 114) گناہوں کی بخشش کا قرآنی ضابطہ یہی ہے احادیث میں بھی اس کی وضاحت ہے کیونکہ ایک نماز سے دوسری نماز تک کے گناہ ختم ہو جاتے ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب نہ ہو۔(صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 543(228)) جمعہ ادا کرنے سے دوسرے جمعے تک کفارہ بن جاتا ہے بشرطیکہ کبائر کا ارتکاب نہ کرے۔"(صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 550(233)) اسی طرح ایک رمضان کے روزے رکھنے سے دوسرے رمضان تک کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں جبکہ کبائر سے اجتناب کیا جائے۔(صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 552(233)) اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ مذکورہ احادیث میں جو بشارت دی گئی ہے وہ صغیرہ گناہوں سے متعلق ہے کبیرہ گناہ اور حقوق العباد اس میں شامل نہیں اگرچہ بعض اہل علم نے اس عام رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب کوئی حدیث کے مطابق وضو کرے گا اور نماز پڑھے گا تو اسے خود بخود ندامت ہوگی۔ جو توبہ کے لیے اساس ہے نیز مومن کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ کبائر کا ارتکاب کرےاور اگر کبھی بشری تقاضے کے مطابق انکا صدور ہو جائے تو اسے توبہ کیے بغیر چین نہیں آتا۔ (وَللنّاسِ فِيمَا يَعْشَقُونَ مَذَاهِبُ)احادیث میں اکیلے وضو کے متعلق یہ فضیلت ہے کہ آدمی کے ہاتھوں منہ اور پاؤں سے سر زد ہونے والے گناہ ان کے دھونے سے معاف ہو جاتے ہیں پھر اس کا مسجد کی طرف آنا اور نماز ادا کرنا ایک اضافی عمل ہوتا ہے جو رفع درجات کا باعث بن جاتا ہے۔(صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 577(244)) نماز کے متعلق بھی احادیث میں آیا ہے کہ جو شخص وضو کرتا ہے اور نماز پنجگانہ ادا کرتا ہے، اس سے اس کے گناہوں کی میل کچیل اس طرح صاف ہو جائے گی جس طرح گھر کے آگے بہنے والی نہر میں پانچ دفعہ نہانے سے صفائی ہو جاتی ہے۔(صحیح البخاری، مواقیت الصلاة، حدیث: 528)لیکن بعض لوگوں کا’’تدبر‘‘قرآن و حدیث میں ٹکراؤ پیدا کر کے احادیث کے انکار کی راہ ہموار کرتا ہے۔چنانچہ’’امام تدبر‘‘نے لکھا ہے’’بخشش کا یہ سستا نسخہ قرآن کے خلاف پڑتا ہے۔‘‘( تدبر حدیث 1/262)6۔حدیث میں نماز اور وضو دونوں کا ذکر ہے اور یہ ایک اتفاقی امر ہے بصورت دیگر اگر کوئی شخص پہلے سے وضو کیے ہوئے ہے اور اس نے نماز ادا کی تو اسے بھی مغفرت حاصل ہوگی۔ اگر اس سے پہلے کوئی ایسا کام کیا جس سے گناہ معاف ہو چکے ہیں تو حدیث میں بیان شدہ عمل خیر ترقی درجات کا باعث ہوگا۔اگر کسی کے کبیرہ گناہ ہیں تو امید ہے کہ اس بابرکت عمل سے ان کی سنگینی کو ضرور ہلکا کر دیا جائے گا۔( عمدۃ القاری:2/450)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
162
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
160
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
160
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
160
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
جناب حمران ہی سے روایت ہے کہ جب حضرت عثمان ؓ نے وضو کر لیا تو فرمایا: میں تمہیں ایک حدیث نہ سناؤں؟ اگر قرآن میں ایک آیت نہ ہوتی تو میں تمہیں وہ حدیث نہ سناتا۔ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’جو شخص اچھی طرح وضو کرے اور نماز پڑھے، تو جتنے گناہ اس نماز سے دوسری نماز تک ہوں گے، وہ بخش دیے جائیں گے۔‘‘ حضرت عروہ نے کہا: وہ آیت یہ ہے: ’’بےشک وہ لوگ جو ہماری نازل کردہ کھلی آیات اور ہدایت کو چھپاتے ہیں، اس کے بعد کہ ہم کتاب میں انہیں لوگوں کے لیے صاف بیان کر چکے ہیں، ان پر اللہ بھی لعنت بھیجتا ہے اور لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت کرتے ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اعضائے وضو کو تین تین بار دھونا بھی مستحب و مسنون ہے لیکن اس روایت میں ہاتھ اور چہرے کو تین تین دفعہ دھونے کا ذکر ہے لیکن کلی کے لیے منہ میں اور ناک میں پانی ڈالنے کے متعلق مرات کا ذکر نہیں لیکن چونکہ یہ دونوں چہرے میں شامل ہیں اور چہرے ہی کے باطن کے ساتھ ان کا تعلق ہے اس لیے ظاہر ہے کہ ان کا عمل بھی تین تین بار ہوگا۔ سر کے مسح کے ساتھ بھی مرات کا ذکر نہیں ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ آئندہ ایک مستقل عنوان قائم کر کے ثابت کریں گے کہ سر کا مسح ایک بار ہے۔ اگرچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عطاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابراہیم التیمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سر کا مسح تین دفعہ کرنا منقول ہے لیکن صحیح موقف یہی ہے کہ سر کا مسح ایک مرتبہ ہی ہے۔2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ابن شہاب زہری سے دو روایات نقل کی ہیں۔ دراصل امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کے دو استاذہیں: ایک حضرت عطاء بن ابی یزید جس میں ہے کہ وضو کے بعد اخلاص کے ساتھ دو رکعت ادا کرنے سے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ دوسرے استاذ حضرت عرو ہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جس میں وضو کے بعد مطلق طور پر نماز پڑھنے کا ذکر ہے اور اس میں ان گناہوں کی تحدید کی گئی ہے جو اس عمل مبارک سے معاف ہو جائیں گے یعنی جو اس نماز سے دوسری نماز تک ہوں گے نیز اس آخری روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن کریم کی ایک آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے۔یہ حدیث بیان فرمائی ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کا ذکر نہیں فرمایا البتہ حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آیت کریمہ کی نشاندہی فرمائی ہے۔ اس بنا پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ 1۔ اس حدیث میں معمولی سے عمل پر غیر معمولی اجر و ثواب کا وعدہ ہے ممکن ہے کہ کوئی سننے والا اسے مبالغہ یا کسی راوی کے سہوونسیان پر محمول کرے پھر میرے اس بیان کی تکذیب کر ڈالے جو دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہوگی اس اندیشہ تکذیب کے پیش نظر میں اسے بیان نہیں کرنا چاہتا لیکن قرآن کریم کی اس آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کرتا ہوں جس میں کتمان علم پر وعیدہے2۔اس عمل پر جو غیر معمولی اجرو ثواب کا وعدہ ہے اس پر انسان فریب اور دھوکے کے میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ اب گناہ معاف ہو گئے ہیں مزید کام کرنے کی ضرورت نہیں۔لوگوں کی اس فریب خوردگی بنا پر دل نہیں چاہتا کہ اسے بیان کروں لیکن مجھے کتمان علم کی وعید کا خوف ہے۔ اس لیے بیان کرتا ہوں ۔ اس اندیشے کا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرمایا ہے چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ بھی نقل فرمائے ہیں’’اس قدر اجرو ثواب ملنے پر دھوکے میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔‘‘(صحیح البخاری، الرقاق، حدیث: 6433)اس کا مطلب یہ ہے کہ سہل پسند لوگوں کو اس بات پر مطمئن نہیں ہونا چاہیے کہ پروانہ مغفرت ملنے کے بعد دیگر اعمال کی کیا ضرورت ہے؟بلکہ انہیں سوچنا چاہیے کہ جب اس معمولی کام پر اس قدر ثواب کی بشارت ہے تو بڑے بڑے کاموں کے بجالانے پر اللہ کی عنایات کا کیا عالم ہوگا۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ عمل خیر کی کوشش ہونی چاہیے، فریب نفس میں مبتلا ہو کر اعمال خیر کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔3۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے بعد جس آیت کا حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے:﴿إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ﴾"بے شک نیکیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہیں۔"(ھود11: 114)اس آیت کے پیش نظر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کا یہ مطلب ہوگا کہ مجھے تکذیب کے ڈر سے یہ بات ذکر نہیں کرنی چاہیے تھی لیکن قرآن کریم سے اس بیان کی تائید ہو رہی ہے کہ نیکیا ں کرنے سے برائیاں خود بخود ختم ہو جاتی ہیں۔ قرآن کریم کی اس تائید کے بعد مجھے خطرہ نہیں کہ یہ حدیث عوام الناس کے لیے کسی تردد کا باعث ہوگی۔(مؤطا امام مالک، الطهارة، حدیث: 160) 4۔پہلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وضو کے بعددو رکعت تحیۃ الوضو ہیں لیکن ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد تحیۃ المسجد ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص وضو کرنے کے بعد مسجد میں آئے اور دورکعت ادا کرے تو اس کے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔(صحیح البخاری، الرقاق، حدیث: 6433)لیکن اس بشارت کے لیے شرط یہ ہے کہ انھیں حضور قلب سے ادا کیا جائے دوران نماز میں خیالات منتشر نہ ہوں از خود خیالات کو دعوت نہ دی جائے۔اگر غیر اختیاری طور پر خیالات آرہے ہیں تو وہ چنداں نقصان دہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے از خود آنے والے خیالات و وساوس سے درگزر فرمایا ہے۔5۔فضائل اعمال کے سلسلے میں جہاں جہاں مغفرت کا ذکر ہے۔ اس سے مراد صغیرہ گناہوں کی معافی ہے، اس لیے کہ کبیرہ گناہ تو بہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شرک ، قتل ناحق اور زنا جیسے کبیرہ گناہوں کی سزابیان کرنے کے بعد ﴿إِلَّا مَن تَابَ﴾"مگر جو شخص ان میں سے توبہ کرے"سے استثنا ذکر کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کبیرہ گناہوں کی تلافی کے لیے توبہ ضروری ہے صغیرہ گناہوں کی تلافی کبیرہ گناہوں سے اجتناب کو قراردیا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ﴾"اگر تم ممنوعات کی بڑی بڑی باتوں سے اجتناب کرو گے تو ہم تمھارے صغیرہ گناہوں کو تم سے خود ہی معاف کردیں گے۔"(النساء4: 31)پھر اچھے کام کرنا از خود برائیوں کو مٹا دیتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ﴾"بے شک نیکیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہیں۔"(ھود11: 114) گناہوں کی بخشش کا قرآنی ضابطہ یہی ہے احادیث میں بھی اس کی وضاحت ہے کیونکہ ایک نماز سے دوسری نماز تک کے گناہ ختم ہو جاتے ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب نہ ہو۔(صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 543(228)) جمعہ ادا کرنے سے دوسرے جمعے تک کفارہ بن جاتا ہے بشرطیکہ کبائر کا ارتکاب نہ کرے۔"(صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 550(233)) اسی طرح ایک رمضان کے روزے رکھنے سے دوسرے رمضان تک کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں جبکہ کبائر سے اجتناب کیا جائے۔(صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 552(233)) اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ مذکورہ احادیث میں جو بشارت دی گئی ہے وہ صغیرہ گناہوں سے متعلق ہے کبیرہ گناہ اور حقوق العباد اس میں شامل نہیں اگرچہ بعض اہل علم نے اس عام رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب کوئی حدیث کے مطابق وضو کرے گا اور نماز پڑھے گا تو اسے خود بخود ندامت ہوگی۔ جو توبہ کے لیے اساس ہے نیز مومن کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ کبائر کا ارتکاب کرےاور اگر کبھی بشری تقاضے کے مطابق انکا صدور ہو جائے تو اسے توبہ کیے بغیر چین نہیں آتا۔ (وَللنّاسِ فِيمَا يَعْشَقُونَ مَذَاهِبُ)احادیث میں اکیلے وضو کے متعلق یہ فضیلت ہے کہ آدمی کے ہاتھوں منہ اور پاؤں سے سر زد ہونے والے گناہ ان کے دھونے سے معاف ہو جاتے ہیں پھر اس کا مسجد کی طرف آنا اور نماز ادا کرنا ایک اضافی عمل ہوتا ہے جو رفع درجات کا باعث بن جاتا ہے۔(صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 577(244)) نماز کے متعلق بھی احادیث میں آیا ہے کہ جو شخص وضو کرتا ہے اور نماز پنجگانہ ادا کرتا ہے، اس سے اس کے گناہوں کی میل کچیل اس طرح صاف ہو جائے گی جس طرح گھر کے آگے بہنے والی نہر میں پانچ دفعہ نہانے سے صفائی ہو جاتی ہے۔(صحیح البخاری، مواقیت الصلاة، حدیث: 528)لیکن بعض لوگوں کا’’تدبر‘‘قرآن و حدیث میں ٹکراؤ پیدا کر کے احادیث کے انکار کی راہ ہموار کرتا ہے۔چنانچہ’’امام تدبر‘‘نے لکھا ہے’’بخشش کا یہ سستا نسخہ قرآن کے خلاف پڑتا ہے۔‘‘( تدبر حدیث 1/262)6۔حدیث میں نماز اور وضو دونوں کا ذکر ہے اور یہ ایک اتفاقی امر ہے بصورت دیگر اگر کوئی شخص پہلے سے وضو کیے ہوئے ہے اور اس نے نماز ادا کی تو اسے بھی مغفرت حاصل ہوگی۔ اگر اس سے پہلے کوئی ایسا کام کیا جس سے گناہ معاف ہو چکے ہیں تو حدیث میں بیان شدہ عمل خیر ترقی درجات کا باعث ہوگا۔اگر کسی کے کبیرہ گناہ ہیں تو امید ہے کہ اس بابرکت عمل سے ان کی سنگینی کو ضرور ہلکا کر دیا جائے گا۔( عمدۃ القاری:2/450)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور روایت کی عبدالعزیز نے ابراہیم سے، انھوں نے صالح بن کیسان سے، انھوں نے ابن شہاب سے، لیکن عروہ حمران سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عثمان ؓ نے وضو کیا تو فرمایا میں تم کو ایک حدیث سناتا ہوں، اگر قرآن پاک کی ایک سورت (نازل) نہ ہوتی تو میں یہ حدیث تم کو نہ سناتا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ جب بھی کوئی شخص اچھی طرح وضو کرتا ہے اور (خلوص کے ساتھ) نماز پڑھتا ہے تو اس کے ایک نماز سے دوسری نماز کے پڑھنے تک کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ عروہ کہتے ہیں وہ آیت یہ ہے (جس کا ترجمہ یہ ہے کہ) ’’جو لوگ اللہ کی اس نازل کی ہوئی ہدایت کو چھپاتے ہیں جو اس نے لوگوں کے لیے اپنی کتاب میں بیان کی ہے۔ ان پر اللہ کی لعنت ہے اور (دوسرے) لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
اعضاءوضو کا تین تین بار دھونا سنت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ہی معمول تھا۔ مگر کبھی کبھی آپ ایک ایک بار اور دو دوبار بھی دھو لیا کرتے تھے۔ تاکہ امت کے لیے آسانی ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
" After performing the ablution 'Uthman said, "I am going to tell you a Hadith which I would not have told you, had I not been compelled by a certain Holy Verse (the sub narrator 'Urwa said: This verse is: "Verily, those who conceal the clear signs and the guidance which we have sent down...)" (2:159). I heard the Prophet (ﷺ) saying, 'If a man performs ablution perfectly and then offers the compulsory congregational prayer, Allah will forgive his sins committed between that (prayer) and the (next) prayer till he offers it.