تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں چھڑی تھی۔ آپ طواف کرتے وقت جب حجراسود کے پاس سے گزرتے تو چھڑی سے اس کی طرف اشارہ کرتے۔ بعض روایات میں اس کی صراحت ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سوار ہو کر طواف کرنے میں کوئی ممانعت نہیں بشرطیکہ کوئی عذر ہو۔ (3) امام بخاری نے اس عنوان کے ذریعے سے ایک روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جسے امام ابوداود نے بیان کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر جب مکہ مکرمہ تشریف لائے تو آپ کی طبیعت ناساز تھی۔ اس بنا پر آپ نے اونٹ پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1881) اس سے معلوم ہوا بیت اللہ کا بحالت سواری طواف کرنا مسنون عمل نہیں بلکہ ایک مجبوری کے پیش نظر ایسا کرنے کی گنجائش ہے۔ واضح رہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب مسجد حرام کی چار دیواری نہیں تھی۔ آج کل کسی سواری کو داخل کرنا ممکن نہیں۔ ہاں آدمی کو کندھوں پر اٹھا کر طواف کرایا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس لیے بھی سواری استعمال کی تھی کہ لوگ آپ سے مناسک حج سیکھ لیں جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ آپ نے سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا تاکہ آپ کو لوگ دیکھیں اور طواف سے متعلقہ مسائل سیکھ سکیں۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3074(1273))