تشریح:
(1) اس حدیث سے عنوان کا پہلا جز تو ثابت ہوتا ہے لیکن دوسرے حصے کا ثبوت اس سے نہیں ہوتا۔ شاید امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اتنا اضافہ بیان کیا ہے کہ حائضہ عورت صفا و مروہ کا طواف بھی نہ کرے۔ اس اضافے کو امام مالک سے یحییٰ بن یحییٰ نیسا پوری کے علاوہ کسی دوسرے نے بیان نہیں کیا۔ اگر یہ اضافہ صحیح ہو تو بھی اس کی بنیاد پر صفا و مروہ کی سعی کے لیے وضو کو شرط قرار نہیں دیا جا سکتا، البتہ صفا و مروہ کی سعی سے پہلے طواف ضروری ہے۔ جب بے وضو طواف درست نہیں تو اس کے تابع ہونے کی وجہ سے سعی بھی بے وضو منع ہو گی۔ ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن عمر رحمۃ اللہ علیہما سے بیان کیا ہے کہ حائضہ عورت تمام ارکان حج بجا لائے لیکن بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی نہ کرے۔ (المصنف لابن أبي شیبة: 129/2) اسلاف میں سے کسی نے بھی صفا و مروہ کی سعی کے لیے وضو کو شرط قرار نہیں دیا، البتہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے ایسا منقول ہے۔ (فتح الباري: 637/3)
(2) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان کے دوسرے جز کو بایں طور پر ثابت کیا ہے کہ اس حدیث سے حائضہ عورت کو بیت اللہ کا طواف کرنے کی ممانعت ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صفا و مروہ کی سعی بغیر وضو کے اور بلا طہارت ہو سکتی ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ اگر طواف کے بعد اور سعی سے پہلے عورت کو حیض آ جائے تو وہ صفا و مروہ کی سعی کرے۔ ہمارے نزدیک صفا و مروہ کی سعی کے لیے وضو کی پابندی لگانا محل نظر ہے۔ واللہ أعلم۔