تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر انہی الفاظ کے ساتھ کتاب الصوم میں عنوان قائم کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث:1988) (2) ایک روایت میں تفصیل ہے کہ حضرت ام فضل ؓ کے پاس لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے روزے کے متعلق اختلاف کیا، کچھ کہنے لگے کہ آج آپ نے روزہ رکھا ہوا ہے اور کچھ کا خیال تھا کہ آپ روزے سے نہیں ہیں۔ حضرت ام فضل ؓ نے حقیقت معلوم کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں دودھ کا پیالہ بھیجا تو آپ نے اونٹ پر بیٹھے بیٹھے اسے پی لیا۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1661) (3) صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے دو سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2746(1162)) تاہم حاجی کے لیے بہتر ہے کہ وہ عرفہ کے دن روزہ نہ رکھے۔ (4) ابن بطال نے کہا ہے کہ عرفہ کے دن روزے کے متعلق علمائے امت کا اختلاف ہے: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان ؓ نے یہ روزہ نہیں رکھا اور میں بھی نہیں رکھتا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ جو شخص عرفہ کا روزہ رکھنا چاہے وہ ہمارا ساتھی نہ بنے کیونکہ یہ دن اللہ کی کبریائی بیان کرنے اور کھانے پینے کا ہے۔ حضرت عطاء نے کہا کہ جو شخص عرفہ کا روزہ نہ رکھے تاکہ حج کے اعمال ادا کرنے میں اور اذکار وغیرہ کی ادائیگی میں کمزوری نہ ہو اسے روزے دار جیسا ثواب ملتا ہے۔ حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ جب دعا کرنے میں کمزوری نہ ہو تو یوم عرفہ کا روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ حج کرنے والا روزہ نہ رکھے، البتہ دوسروں کے لیے میں یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ روزہ رکھیں۔ (عمدةالقاري:248/3)