تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے یہ حدیث کتاب العیدین میں بھی ذکر کی ہے اور وہاں بایں الفاظ عنوان قائم کیا تھا: (باب التكبير أيام منى و إذا غدا إلی عرفة) ’’منیٰ میں قیام کے وقت اور عرفہ جاتے ہوئے اللہ أکبر کہنا۔‘‘ (2) ایک روایت میں ہے کہ راوی حدیث عبداللہ بن ابو سلمہ نے عبیداللہ سے کہا: مجھے تعجب اس بات پر ہے کہ تم لوگ رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے متعلق دریافت نہیں کرتے۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ مذکورہ حدیث سے اختیار معلوم ہوتا ہے افضل کی نشاندہی نہیں ہوتی، رسول اللہ ﷺ کے عمل سے افضل عمل معلوم ہو گا۔ بہرحال اس وقت تکبیر اور تلبیہ دونوں ہی ثابت ہیں، انسان جسے چاہے اختیار کرے یا دونوں کو عمل میں لے آئے۔ (فتح الباري:644/3) (3) دراصل امام بخاری ؒ اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے ان حضرات کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کا موقف ہے کہ حجاج کرام کو میدان عرفات روانگی کے وقت تلبیہ بند کر دینا چاہیے جبکہ یہ موقف حدیث کے خلاف ہے۔