تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ وضو کرتے وقت پاؤں کا وظیفہ انھیں دھونا ہے خواہ جوتا ہی کیوں نہ پہنا ہو۔ اگر پاؤں موزوں یا جرابوں میں نہیں ہیں تو ان کا دھونا معین ہے بصورت دیگران پر مسح کیا جا سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جوتوں کو موزوں کا حکم دے کر ان پر مسح کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ اگر وضو کرنے والا جوتا پہنے ہوئے ہے تو وضو کے وقت دو صورتیں ممکن ہیں۔ (1)۔ جوتا پہنے ہوئے پاؤں دھوئے جائیں۔ یہ اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ پاؤں میں چپل، سوفٹی وغیرہ ہو کیونکہ بند جوتے میں پاؤں نہیں دھوئے جا سکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جوتا پہنے پہنے پاؤں دھونا ثابت ہے چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کے وقت نعلین کی موجودگی میں پاؤں پر پانی ڈالا پھر انھیں ادھر ادھر موڑا تاکہ پانی پاؤں کے تمام حصوں تک پہنچ جائے۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 117 عن علي، و حدیث: 137 عن إبن عباس) نعل سے مراد عربی جوتا ہے جو چپل کی طرح ہوتا ہے۔ اس سے بند جوتا مراد نہیں۔
2۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جوتا اتار کر پاؤں دھوئے جائیں۔ اس میں کوئی تکلف نہیں ہو تا بلکہ پاؤں دھونے میں آسانی رہتی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا استدلال لفظ (يُتَوَضَّأُ فيها) سے ہے کیونکہ وضو میں اصل غسل اعضاء ہے لفظ (تَوَضَّأُ) دھونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے نیز اگر مسح کیا ہوتا تو (يُتَوَضَّأُ فيها) کے بجائے (يَتَوَضَّأُ عَلَيْهَا) ہونا چاہیے تھا۔
3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے، دوسرا جز بایں الفاظ ہے کہ جوتوں پر مسح نہ کیا جائے۔ اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ان روایات کے ضعف کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں جن میں جوتوں پر مسح کرنے کا ذکر ہے مثلاً حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق روایات میں ہے کہ انھوں نے وضو کرتے وقت جوتوں پر مسح کیا اور نماز پڑھی۔ (سنن الکبری للبيهقي: 287/1) اس سلسلے میں ایک مرفوع روایت بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوتوں پر مسح فرمایا۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 159) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جن روایات کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے ان کی صحت اور ضعف میں اختلاف ہے۔ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے ان روایات کو صحیح کہا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے (تمام المنة، ص: (115۔113)وفتاوی الدین الخالص: 2 /359۔363) دلائل کے اس اختلاف کی وجہ سے اہل علم کا ایک گروہ جوتوں پر مسح کے جواز کا قائل ہے جبکہ بعض اہل علم اسے ناجائز کہتے ہیں دلائل کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسح کرنے کی گنجائش موجود ہے تاہم چپل نما جوتوں پر مسح نہ کرنا ہی بہتر ہے۔
3۔ عرب فطری طور پر سادہ زندگی بسر کرنے کے عادی تھے۔ جوتوں کے متعلق ان کا عمومی ذوق یہ تھا کہ اونٹ بکری کی کھال کو خشک کیا اسے کاٹ کر اس میں تسمے لگا لیے ان کے یہی جوتے ہوتے تھے لیکن عرب کے علاوہ دوسرے لوگ چمڑے کو دباغت سے خشک کرتے ان کے بال وغیرہ دور کرتے پھر اس چمڑے کو جوتے میں استعمال کرتے جن جوتوں پر بال نہ ہوتے انھیں سبتی جوتا کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس قسم کے سبتی جوتے بطور تحفہ آتے اور آپ انہیں استعمال فرماتے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما چونکہ شدید الاتباع تھے اس لیے جہاں سے اس قسم کا جوتا ملتا وہ اسے حاصل کرتے اور پہنتے تھے ان پر اعتراض ہوا تو انھوں نے یہ جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قسم کا جوتا پہنتے دیکھا ہے پھر آپ نے ضمناً یہ بات بیان فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں وضو کرتے تھے یعنی ان پر مسح نہیں کرتے تھے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس ضمنی بات سے ایک اہم مسئلہ مستنبط فرمایا۔ روایت میں بیان شدہ دیگر مسائل کے متعلق کتاب الحج اور كتاب اللباس میں بحث ہوگی۔