تشریح:
(1) قریش نے بیت اللہ کے نگران ہونے کے حوالے سے کئی ایک بدعات جاری کر رکھی تھیں۔ انہوں نے لوگوں میں مشہور کر رکھا تھا کہ جن کپڑوں میں گناہ کیے جائیں ان میں بیت اللہ کا طواف نہیں کرنا چاہیے، پھر وہ جنہیں کپڑے دیتے وہ تو احرام پہن کر بیت اللہ کا طواف کرتے اور جنہیں وہ کپڑے نہ دیتے وہ ننگے طواف شروع کر دیتے۔ رسول اللہ ﷺ نے باضابطہ اعلان کے ذریعے سے اس رسم کو ختم کیا۔ (2) قریش اپنے دین میں اتنے شدت پسند تھے کہ وہ منیٰ کے دنوں سائے تلے کھڑے نہ ہوتے تھے اور نہ اپنے گھروں میں دروازوں سے داخل ہی ہوتے تھے۔ انہوں نے ایک رسم یہ بھی جاری کر رکھی تھی کہ وہ حج کے موقع پر میدان عرفات میں نہیں جاتے تھے بلکہ مزدلفہ میں ٹھہر جاتے اور کہتے کہ ہم تو اہل اللہ ہیں، ہم حدود حرم سے باہر نہیں جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کے ذریعے سے اس رسم کی اصلاح فرمائی اور انہیں حکم دیا کہ وہ بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ میدان عرفات جائیں اور وہاں سے لوٹ کر گھروں کو آئیں۔ (3) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے وقوف عرفہ ثابت کیا ہے۔ جمہور محدثین کے نزدیک یہ وقوف مسجد نمرہ میں نماز ظہر اور نماز عصر کو اکٹھا ادا کر لینے کے بعد ہونا چاہیے۔ میدان عرفات میں عجز و انکسار سے کھڑے ہونا، شام تک خود کو دعاؤں میں مصروف رکھنا، اللہ کے حضور ہاتھ پھیلانا حج کی روح ہے۔ اگر یہ رہ جائے تو حج نہیں ہوتا اور اس کی تلافی کسی صورت میں نہیں ہو سکتی۔ اگر کوئی شخص اس میں شریک ہو جائے تو اس کا حج ادا ہو جاتا ہے۔ حضرت اسامہ بن زید ؓ رسول اللہ ﷺ کے متعلق بیان فرماتے ہیں کہ میدان عرفات میں رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی پر میں آپ کے پیچھے سوار تھا۔ آپ دونوں ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگ رہے تھے۔ اچانک آپ کی اونٹنی جھک گئی اور آپ کے ہاتھ سے اس کی نکیل چھوٹ گئی۔ آپ نے اپنا ایک ہاتھ نکیل اٹھانے کے لیے نیچے جھکا دیا اور دوسرے ہاتھ کو دعاؤں میں بدستور اٹھائے رکھا۔ (سنن النسائي، مناسك الحج، حدیث:3014) لہذا جو حاجی میدان عرفات میں پہنچ کر فضول باتوں اور لایعنی گفتگو میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں وہ وقوف کرنے کے باوجود بھی ’’بے وقوف‘‘ ہی رہتے ہیں۔ واللہ المستعان