Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: To rinse the mouth with water while performing ablution)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس مسئلہ کو ابن عباس اور عبداللہ بن زید ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے نقل کیا ہے۔
167.
حضرت عثمان ؓ کے آزاد کردہ غلام حضرت حمران سے روایت ہے، انہوں نے حضرت عثمان ؓ کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کے لیے پانی منگوایا، پھر اسے اپنے دونوں ہاتھوں پر ڈالا اور انہیں تین مرتبہ دھویا، اس کے بعد اپنا دایاں ہاتھ برتن میں ڈالا، کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا، پھر اسے صاف کیا۔ بعد ازیں اپنا چہرہ تین مرتبہ دھویا، اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں تک تین بار دھوئے، پھر سر کا مسح کیا، پھر ہر پاؤں کو تین دفعہ دھویا۔ اس کے بعد انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو اپنے اس وضو کی طرح وضو کرتے دیکھا ہے، نیز آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ’’جس شخص نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا اور دو رکعت بایں طور پڑھیں کہ اپنے دل سے باتیں نہ کیں تو اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہ معاف کر دے گا۔‘‘
تشریح:
وضو میں کلی کرنا ضروری ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلی سمیت وضو فرمایا ہے اور کسی صحابی سے اس کا ترک ثابت نہیں ۔ اس سلسلے میں آپ کا حکم بھی مروی ہے جو واجب الاتباع ہے۔ چنانچہ لقیط بن صبرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ نے فرمایا:’’جب تو وضو کرنے لگے تو کلی کر۔‘‘ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 144) بہرحال وضو میں استنشاق کی طرح کلی بھی مطلوب ہے البتہ استنشاق میں زیادہ تاکید ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے استنشاق اور استنثارکو مضمضے (کلی)پر مقدم کیا ہےحالانکہ عمل کے لحاظ سے کلی پہلے ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
166
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
164
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
164
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
164
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی یہ حدیث (140)پہلے گزر چکی ہے اور حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان شدہ حدیث (185)آئندہ آئے گی۔
اس مسئلہ کو ابن عباس اور عبداللہ بن زید ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے نقل کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عثمان ؓ کے آزاد کردہ غلام حضرت حمران سے روایت ہے، انہوں نے حضرت عثمان ؓ کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کے لیے پانی منگوایا، پھر اسے اپنے دونوں ہاتھوں پر ڈالا اور انہیں تین مرتبہ دھویا، اس کے بعد اپنا دایاں ہاتھ برتن میں ڈالا، کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا، پھر اسے صاف کیا۔ بعد ازیں اپنا چہرہ تین مرتبہ دھویا، اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں تک تین بار دھوئے، پھر سر کا مسح کیا، پھر ہر پاؤں کو تین دفعہ دھویا۔ اس کے بعد انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو اپنے اس وضو کی طرح وضو کرتے دیکھا ہے، نیز آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ’’جس شخص نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا اور دو رکعت بایں طور پڑھیں کہ اپنے دل سے باتیں نہ کیں تو اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہ معاف کر دے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
وضو میں کلی کرنا ضروری ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلی سمیت وضو فرمایا ہے اور کسی صحابی سے اس کا ترک ثابت نہیں ۔ اس سلسلے میں آپ کا حکم بھی مروی ہے جو واجب الاتباع ہے۔ چنانچہ لقیط بن صبرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ نے فرمایا:’’جب تو وضو کرنے لگے تو کلی کر۔‘‘ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 144) بہرحال وضو میں استنشاق کی طرح کلی بھی مطلوب ہے البتہ استنشاق میں زیادہ تاکید ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے استنشاق اور استنثارکو مضمضے (کلی)پر مقدم کیا ہےحالانکہ عمل کے لحاظ سے کلی پہلے ہے۔
ترجمۃ الباب:
اس حکم کو حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت عبداللہ بن زید ؓ نے نبی ﷺ سے نقل فرمایا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے زہری کے واسطے سے خبر دی، کہا ہم کو عطاء بن یزید نے حمران مولیٰ عثمان بن عفان ؓ کے واسطے سے خبر دی، انھوں نے حضرت عثمان ؓ کو دیکھا کہ انھوں نے وضو کا پانی منگوایا اور اپنے دونوں ہاتھوں پر برتن سے پانی (لے کر) ڈالا۔ پھر دونوں ہاتھوں کو تین دفعہ دھویا۔ پھر اپنا داہنا ہاتھ وضو کے پانی میں ڈالا۔ پھر کلی کی، پھر ناک میں پانی دیا، پھر ناک صاف کی۔ پھر تین دفعہ اپنا منہ دھویا اور کہنیوں تک تین دفعہ ہاتھ دھوئے، پھر اپنے سر کا مسح کیا۔ پھر ہر ایک پاؤں تین دفعہ دھویا۔ پھر فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ میرے اس وضو جیسا وضو فرمایا کرتے تھے اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص میرے اس وضو جیسا وضو کرے اور (حضورِ قلب سے) دو رکعت پڑھے جس میں اپنے دل سے باتیں نہ کرے۔ تو اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وضومیں کلی کرنا بھی ضروریات سے ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Humran (RA): (the freed slave of 'Uthman bin 'Affan) I saw 'Uthman bin 'Affan asking (for a tumbler of water) to perform ablution (and when it was brought) he poured water from it over his hands and washed them thrice and then put his right hand in the water container and rinsed his mouth and washed his nose by putting water in it and then blowing it out. Then he washed his face thrice and (then) forearms up to the elbows thrice, then passed his wet hands over his head and then washed each foot thrice. After that 'Uthman said, "I saw the Prophet (ﷺ) performing ablution like this of mine, and he said, 'If anyone performs ablution like that of mine and offers a two-rak'at prayer during which he does not think of anything else (not related to the present prayer) then his past sins will be forgiven. '