تشریح:
(1) جب ایک کام سے فراغت کے بعد دوسرا کام شروع کرنا ہوتا ہے تو پہلے کام سے فراغت کے بعد بھگڈر مچ جاتی ہے اور لوگ شوروغل کرتے ہوئے دوسرے کام کی طرف دوڑتے ہیں، چنانچہ غروب آفتاب کے بعد جب لوگ وقوف عرفات سے فارغ ہوئے تو مزدلفہ پہنچنے کے لیے اپنے اونٹوں کو تیز دوڑانا شروع کر دیا اور شوروغل کرنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں تنبیہ فرمائی کہ عرفات سے نکلتے وقت بے تحاشانہ بھاگیں اور نہ اونٹوں کو دوڑائیں کیونکہ ایسے موقع پر انہیں دوڑانا کوئی اچھا کام نہیں بلکہ ایسا کرنے سے نقصان کا اندیشہ ہے۔ (2) امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ حدیث میں جو الفاظ قرآنی مصادر سے آتے ہیں، ان کی قرآنی آیات سے وضاحت کر دیتے ہیں تاکہ مطالعہ کرنے والوں کو قرآن و حدیث پر بیک وقت عبور حاصل ہو، چنانچہ حدیث میں لفظ إيضاع آیا ہے۔ اس مناسبت سے آپ کا ذہن سورہ توبہ کی اس آیت کی طرف منتقل ہوا: ﴿وَلَأَوْضَعُوا خِلَالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ﴾ (التوبة:47:9) ’’اور تمہارے درمیان فتنہ برپا کرنے کے لیے ضرور ادھر ادھر دوڑتے پھرتے۔‘‘ چونکہ اس آیت میں (خِلَالَكُمْ) کا لفظ آیا ہے اس مناسبت سے سورۃ الکہف کی آیت کو زیر بحث لائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَفَجَّرْنَا خِلَالَھُمَا نَھرًا ﴿٣٣﴾) (الکھف33:18) ’’اور ہم نے ان کے درمیان ایک نہر جاری کر دی تھی۔‘‘ مقصد یہ ہے کہ خلال کے معنی درمیان کے ہیں۔ واللہ أعلم