تشریح:
(1) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جب مزدلفہ میں مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا جائے تو ان کے درمیان نوافل وغیرہ نہ پڑھے جائیں اور نہ ان کے بعد نفل وغیرہ ہی ادا کرنے چاہئیں کیونکہ جمع کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کے درمیان دوسری کوئی نماز نہ ادا کی جائے۔ یہ تاویل کرنا کہ نماز عشاء کے متصل بعد نفل پڑھنے منع ہیں، اس کے بعد رات کے کسی حصے میں پڑھے جا سکتے ہیں۔ ایسا کرنا محض سخن سازی ہے کیونکہ حضرت جابر ؓ سے مروی حدیث میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز عشاء پڑھ کر لیٹ گئے حتی کہ فجر طلوع ہو گئی۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:2950(1218)) (2) سنت یہی ہے کہ اس رات نماز عشاء دو رکعت ادا کر کے انسان سو جائے۔ اتباع سنت میں خیر و برکت ہے اور قیامت کے دن یہی ذریعۂ نجات ہو گا۔ ان مقامات میں شارع ؑ کو یہ بات محبوب ہے کہ مغرب و عشاء کو ملا کر پڑھا جائے۔ ان کے درمیان یا عشاء کے بعد کوئی نوافل ادا نہ کیے جائیں۔ جس کام سے محبوب راضی ہو، محبت کے دعویدار کو بھی وہ کام ذوق و شوق سے انجام دینا چاہیے، البتہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ مزدلفہ میں نماز مغرب کے بعد دو سنت پڑھتے تھے۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1675) ممکن ہے کہ انہوں نے اسے نماز عشاء کے ساتھ ملا کر نہ پڑھا ہو۔ واللہ أعلم