تشریح:
1۔ عربی زبان میں تیمُّن کے کئی معنی ہیں۔ مثلاً دائیں جانب سے ابتدا کرنا، دائیں ہاتھ سے کوئی چیز لینا، تبرک حاصل کرنا اور قسم کھانا، وغیرہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مذکورہ حدیث تیمُّن کا معنی متعین فرمایا کہ اس سے مراد دائیں جانب سے آغاز کرنا ہے۔ یہ لفظ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر کام میں تیمُّن پسند تھا۔ (فتح الباري: 358/1) امام بخاری کی عنوان بندی کے متعلق معروف عادت ہے کہ جب انھیں کسی زیر بحث مسئلے کے استدلال میں تنگی نظر آتی ہے تو عنوان کو وسعت دینے کے لیے اس کے ساتھ اسی طرح کی کوئی اور چیز شامل کر دیتے ہیں جس سے مطلب حاصل کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے یہاں بھی وضو میں دائیں جانب سے آغاز کے متعلق جب احادیث میں تنگی نظر آئی تو آپ نے وضو کے ساتھ غسل کا مسئلہ شامل کردیا تاکہ غسل کے متعلق مسئلہ تیمُّن سے وضو میں دائیں جانب سے آغاز کرنے کا مسئلہ واضح ہو جائے کیونکہ اس مسئلے میں غسل اور وضو کا حکم یکساں ہے چنانچہ جب غسل میت کے وضو میں دائیں جانب سے شروع کرنا مطلوب ہے تو پھر نماز کے وضو میں رعایت بدرجہ اولیٰ ملحوظ رہنی چاہیے۔
2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کو غسل دینے کے متعلق جو ہدایات دی تھیں، ان میں دو باتیں ہیں۔ (1)۔ دائیں جانب سے شروع کرنا۔ (2)۔ مقامات وضو سے شروع کرنا ان دونوں باتوں پر بیک وقت عمل کی یہی صورت ہو سکتی ہے کہ غسل کا آغاز اعضائے وضو سے اسی طرح کیا جائے کہ پہلے میت کا دایاں ہاتھ دھویا جائے پھر بایاں ہاتھ اسی طرح جب پاؤں دھونے کی نوبت آئے تو پہلے دایاں پاؤں پھر بایاں پاؤں دھویا جائے۔ اس کے بعد تمام جسم کو غسل دیا جائے۔
3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دوسرے نمبر پر بیان کیا ہے حالانکہ اس میں لفظ ’’طہور‘‘ موجود ہےجو وضو کرتے وقت دائیں جانب سے شروع کرنے کے متعلق بڑی وزنی دلیل ہے لیکن آپ نے اپنے عنوان کے لیے اس حدیث کو بنیاد نہیں بنایا کیونکہ اس حدیث میں تیمُّن اور طہور کے الفاظ اشتراک واجمال کی وجہ سے مقصد کے لیے نص نہیں ہیں جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ لفظ تیمُّن دائیں جانب سے شروع کرنے، قسم کھانے، تبرک حاصل کرنے اور دائیں ہاتھ سے لینے کے معانی میں مشترک ہے اسی طرح لفظ طہور میں اجمال ہے کہ اس سے مراد بدن کی طہارت ہے یا کپڑے کی پھر اس سے مراد غسل ہے یا وضو انہی وجوہات کی بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دوسرا درجہ دیا اور حدیث اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پہلا درجہ دے کر اس سےمسئلہ زیر بحث ثابت فرمایا۔
4۔ دائیں جانب اختیار کرنے کے متعلق قاعدہ یہ ہے کہ جن امور کا تعلق تکریم و تعظیم اور تزئین و تحسین سے ہے وہ دائیں جانب سے شروع کیے جائیں، مثلاً لباس زیب تن کرنا، موزے پہننا، مسجد میں داخل ہونا، مسواک کرنا، سرمہ لگانا، ناخن کاٹنا، مونچھیں مونڈنا، بالوں میں کنگھی کرنا، بغلوں کے بال اکھاڑنا، سر منڈوانا، نماز میں سلام پھیرنا، اعضائے طہارت دھونا، بیت الخلاء سے نکلنا، کھانا، پینا، مصافحہ کرنا، حجر اسود کو بوسہ دینا وغیرہ اور جو امور ان کے برعکس ہیں ان میں بائیں جانب اختیار کی جائے، مثلاً: بیت الخلاء میں داخل ہونا، مسجد سے نکلنا، استنجا کرنا، ناک صاف کرنا، کپڑے یا موزے یا جرابیں اتارنا وغیرہ نیز بعض اعضائے وضو ایسے بھی ہیں۔ جن میں دائیں یا بائیں کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا بلکہ انہیں یکبار ہی دھونا پڑتا ہے مثلاً ہاتھ کان رخسار وغیرہ۔ (عمدة القاري: 472/2)
5۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حتی المقدور دائیں جانب اہتمام کرتے۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 426) اس کا مطلب یہ ہے کہ دائیں جانب اختیار کرنے میں اگر کوئی رکاوٹ آجائے تو پھر بائیں جانب اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري: 354/1)