Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The staying at 'Arafat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1681.
حضرت جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: (قبل از اسلام) ایک دفعہ میرا اونٹ گم ہو گیا۔ میں عرفہ کے دن اسے تلاش کرنے نکلا تو میں نے نبی کریم ﷺ کومیدان عرفات میں وقوف کرتے ہوئے دیکھا۔ میں نے دل میں کہا: اللہ کی قسم!یہ تو قوم حمس سے ہیں(جوحدود حرم سے باہر نہیں نکلتے)یہاں ان کا کیا کام ہے؟
تشریح:
(1) حمس، حماست سے ہے جس کے معنی سختی کے ہیں۔ قریش کو حمس کہنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے دین میں سختی سے کام لیتے تھے۔ اس سختی کی وجہ سے وہ حدود حرم سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ حضرت جبیر بن مطعم ؓ کو اس لیے تعجب ہوا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دوران حج میں حدود حرم سے باہر میدان عرفات میں وقوف کرتے دیکھا۔ رسول اللہ ﷺ کا مقصد قریش کی اس بدعت کو اپنے عمل سے توڑنا تھا۔ (2) حضرت جبیر بن مطعم ؓ بیان کرتے ہیں کہ قریش مزدلفہ سے واپس ہو جاتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہم حمس ہونے کی وجہ سے حدود حرم سے باہر نہیں نکل سکتے، نیز انہوں نے حج کے موقع پر وقوف عرفہ ترک کر دیا تھا جبکہ میں نے دور جاہلیت میں رسول اللہ ﷺ کو لوگوں کے ساتھ میدان عرفات میں ایک سواری پر وقوف کرتے دیکھا، پھر وہ لوگوں کے ساتھ مزدلفہ آئے، وہاں وقوف فرمایا اور لوگوں کے ساتھ ہی وہاں سے واپس ہوئے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ کی توفیق اور اس کے حکم سے ایسا کرتے تھے۔ (فتح الباري:652/3) (3) ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بہترین دعا یوم عرفہ کی ہے۔ اور سب سے بہترین کلمات جو میں نے اور مجھ سے پہلے انبیاء ؑ نے کہے ہیں وہ یہ ہیں:(لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو علی كل شئي قدير)‘‘(جامع الترمذي، الدعوات، حدیث:3585) (4) واضح رہے کہ عرفہ کے دن نماز ظہر و عصر کے بعد جبل رحمت کے قریب کھڑے ہونا اور دعائیں مانگنا مستحب ہے۔ علاوہ ازیں میدان عرفات میں کسی بھی جگہ وقوف کیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تو یہاں کھڑا ہوا ہوں لیکن میدان عرفہ سارے کا سارا وقوف کی جگہ ہے۔‘‘(صحیح مسلم، الحج، حدیث:2952(1218))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1618
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1664
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1664
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1664
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
90.01۔۔۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے گزشتہ حدیث کے پیش نظر کسی اور حدیث کا اندراج نہیں کیا کیونکہ اس میں یہ الفاظ ہیں: "اگر تو سنت کی اتباع کرنا چاہتا ہے تو خطبہ مختصر اور وقوف میں جلدی کرنا۔" صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے یہ الفاظ مذکور ہیں۔ اس عنوان کے تحت وہی حدیث لکھنے کا پروگرام تھا جسے امام مالک نے امام ابن شہاب زہری سے بیان کیا ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس کتاب میں وہی حدیث لاؤں جو بلا فائدہ مکرر نہ ہو۔ اس عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ صحیح بخاری میں کوئی حدیث مکرر نہیں ہے جو احادیث بظاہر مکرر نظر آتی ہیں ان میں تقیید و اطلاق، اضافہ و کمی اور سند وغیرہ میں ضرر و تفاوت ہوتا ہے۔ واللہ اعلم
حضرت جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: (قبل از اسلام) ایک دفعہ میرا اونٹ گم ہو گیا۔ میں عرفہ کے دن اسے تلاش کرنے نکلا تو میں نے نبی کریم ﷺ کومیدان عرفات میں وقوف کرتے ہوئے دیکھا۔ میں نے دل میں کہا: اللہ کی قسم!یہ تو قوم حمس سے ہیں(جوحدود حرم سے باہر نہیں نکلتے)یہاں ان کا کیا کام ہے؟
حدیث حاشیہ:
(1) حمس، حماست سے ہے جس کے معنی سختی کے ہیں۔ قریش کو حمس کہنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے دین میں سختی سے کام لیتے تھے۔ اس سختی کی وجہ سے وہ حدود حرم سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ حضرت جبیر بن مطعم ؓ کو اس لیے تعجب ہوا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دوران حج میں حدود حرم سے باہر میدان عرفات میں وقوف کرتے دیکھا۔ رسول اللہ ﷺ کا مقصد قریش کی اس بدعت کو اپنے عمل سے توڑنا تھا۔ (2) حضرت جبیر بن مطعم ؓ بیان کرتے ہیں کہ قریش مزدلفہ سے واپس ہو جاتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہم حمس ہونے کی وجہ سے حدود حرم سے باہر نہیں نکل سکتے، نیز انہوں نے حج کے موقع پر وقوف عرفہ ترک کر دیا تھا جبکہ میں نے دور جاہلیت میں رسول اللہ ﷺ کو لوگوں کے ساتھ میدان عرفات میں ایک سواری پر وقوف کرتے دیکھا، پھر وہ لوگوں کے ساتھ مزدلفہ آئے، وہاں وقوف فرمایا اور لوگوں کے ساتھ ہی وہاں سے واپس ہوئے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ کی توفیق اور اس کے حکم سے ایسا کرتے تھے۔ (فتح الباري:652/3) (3) ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بہترین دعا یوم عرفہ کی ہے۔ اور سب سے بہترین کلمات جو میں نے اور مجھ سے پہلے انبیاء ؑ نے کہے ہیں وہ یہ ہیں:(لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو علی كل شئي قدير)‘‘(جامع الترمذي، الدعوات، حدیث:3585) (4) واضح رہے کہ عرفہ کے دن نماز ظہر و عصر کے بعد جبل رحمت کے قریب کھڑے ہونا اور دعائیں مانگنا مستحب ہے۔ علاوہ ازیں میدان عرفات میں کسی بھی جگہ وقوف کیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تو یہاں کھڑا ہوا ہوں لیکن میدان عرفہ سارے کا سارا وقوف کی جگہ ہے۔‘‘(صحیح مسلم، الحج، حدیث:2952(1218))
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جبیر بن مطعم ؓ نے، ان سے ان کے باپ نے کہ میں اپنا ایک اونٹ تلاش کر رہا تھا (دوسری سند ) اور ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمر بن دینار نے، انہوں نے محمد بن جبیر ؓ سے سنا کہ میرا ایک اونٹ کھو گیا تھا تو میں عرفات میں اس کو تلاش کرنے گیا، یہ دن عرفات کا تھا، میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ عرفات کے میدان میں کھڑے ہیں۔ میری زبان سے نکلا قسم اللہ کی ! یہ تو قریش ہیں پھر یہ یہاں کیوں ہیں۔
حدیث حاشیہ:
جاہلیت میں دوسرے تمام لوگ عرفات میں وقوف کرتے تھے، لیکن قریش کہتے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اہل و عیال ہیں، اس لیے ہم وقوف کے لیے حرم سے باہر نہیں نکلیں گے۔ آنحضرت ﷺ بھی قریش میں سے تھے مگر آپ اور تمام مسلمان اور غیر قریش کے امتیاز کے بغیر عرفات ہی میں وقوف پذیر ہوئے۔ عرفات حرم سے باہر ہے اس لیے راوی کو حیرت ہوئی کہ ایک قریش اور اس دن عرفات میں۔ لفظ حمس حماست سے مشتق ہے۔ قریش کے لوگوں کو حمس اس وجہ سے کہتے تھے کہ وہ اپنے دین میں حماست یعنی سختی رکھتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muhammad bin Jubair bin Mut'im (RA): My father said, "(Before Islam) I was looking for my camel .." The same narration is told by a different sub-narrator. Jubair bin Mut'im said, "My camel was lost and I went out in search of it on the day of 'Arafat, and I saw the Prophet (ﷺ) standing in 'Arafat. I said to myself: By Allah he is from the Hums (literally: strictly religious, Quraish were called so, as they used to say, 'We are the people of Allah we shall not go out of the sanctuary). What has brought him here?" ________