قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الحَجِّ (بَابُ رُكُوبِ البُدْنِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: لِقَوْلِهِ {وَالبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا القَانِعَ وَالمُعْتَرَّ كَذَلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلاَ دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ كَذَلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَبَشِّرِ المُحْسِنِينَ} [الحج: 37] قَالَ مُجَاهِدٌ: " سُمِّيَتِ البُدْنَ: لِبُدْنِهَا، وَالقَانِعُ: السَّائِلُ، وَالمُعْتَرُّ: الَّذِي يَعْتَرُّ بِالْبُدْنِ مِنْ غَنِيٍّ أَوْ فَقِيرٍ، وَشَعَائِرُ: اسْتِعْظَامُ البُدْنِ وَاسْتِحْسَانُهَا، وَالعَتِيقُ: عِتْقُهُ مِنَ الجَبَابِرَةِ، وَيُقَالُ: وَجَبَتْ سَقَطَتْ إِلَى الأَرْضِ، وَمِنْهُ وَجَبَتِ الشَّمْسُ

1689. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا يَسُوقُ بَدَنَةً فَقَالَ ارْكَبْهَا فَقَالَ إِنَّهَا بَدَنَةٌ فَقَالَ ارْكَبْهَا قَالَ إِنَّهَا بَدَنَةٌ قَالَ ارْكَبْهَا وَيْلَكَ فِي الثَّالِثَةِ أَوْ فِي الثَّانِيَةِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ حجر میں فرمایا ” ہم نے قربانیوں کو تمہارے لیے اللہ کے نام کی نشانی بنایا ہے، تمہارے واسطے ان میں بھلائی ہے سو پڑھو ان پر اللہ کا نام قطار باندھ کر، پھر وہ جب گر پڑیں اپنی کروٹ پر (یعنی ذبح ہو جائیں ) تو کھاؤ ان میں سے اور کھلاؤ صبر سے بیٹھنے والے اور مانگنے والے دونوں طرح کے فقیروں کو، اسی طرح تمہارے لیے حلال کردیا ہم نے ان جانوروں کو تاکہ تم شکر کرو۔ اللہ کو نہیں پہنچتا ان کا گوشت اور نہ ان کا خون، لیکن اس کو پہنچتا ہے تمہارا تقویٰ، اس طرح ان کو بس میں کر دیا تمہارے کہ اللہ کی بڑائی کرو اس بات پر کہ تم کو اس نے راہ دکھائی اور بشارت سنا دے نیکی کرنے والوں کو۔ مجاہد نے کہا کہ قربانی کے جانور کو بدنہ اس کے موٹا تازہ ہونے کی وجہ سے کہا جاتا ہے، قانع سائل کو کہتے ہیں اور معتر جو قربانی کے جانور کے سامنے سائل کی صورت بنا کر آجائے خواہ غنی ہو یا فقیر، شعائر کے معنی قربانی کے جانور کی عظمت کو ملحوظ رکھنا اور اسے موٹا بنانا ہے۔ عتیق (خانہ کعبہ کو کہتے ہیں ) بوجہ ظالموں اور جابروں سے آزاد ہونے کے، جب کوئی چیز زمین پر گرجائے تو کہتے ہیں : وجبت، اسی سے وجبت الشّمس آتا ہے یعنی سورج ڈوب گیا۔ تشریح : حافظ ابن حجر فرماتے ہیں قولہ و القانع السائل الذی یعتر بالبدن من غنی او فقیر ای یطیف بہا متعرضا لہا و ہذا التعلیق اخرجہ ایضا عبد بن حمید من طریق عثمان بن الاسود قلت لمجاہد ما القانع؟ قال جارک الذی ینظر ما دخل بیتک و المعتر الذی یعتر بباک و یریک نفسہ و لا یسلک شیئا و اخرج ابن ابی حاتم من طریق سفیان بن عیینۃ عن ابن ابی نجیح عن مجاہد قال القانع ہو الطامع و قال مرۃ ہو السائل و من یسئلک و من طریق الثوری عن فرا ت عن سعید بن جبیر المعتر الذی یعتریک یزورک و لا یسئالک و من طریق ابن جریع عن مجاہد المعتر الذی یعتر بالبدن من غنی او فقیر و قال الخلیل فی العین القنوع المعتزل للسالۃ قنع لہ مال و خضع و ہو السائل و المعتر الذی یعترض و لا یسال و یقال قنع بکسر النون اذا رضی وقنع بفتحہا اذا سال و قرا الحسن المعتری وہو بمعنی المعتر ( فتح الباری ) یعنی قانع سے سائل مرا دہے اور ( لغا ت الحدیث ) میں قنوع کے ایک معنی مانگنا بھی نکلتا ہے اور معتر وہ غنی یا فقیر جو دل سے طالب ہو کر وہاں گھومتا رہے تاکہ اس کو گوشت حاصل ہو جائے زبان سے سوال نہ کرے معتر وہ فقیر جو سامنے آئے اس کی صورت سوالی ہو لیکن سوال نہ کرے لغات الحدیث اس تعلیق کو عبد بن حمید نے طریق عثمان بن اسود سے نکالا ہے میں نے مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے قانع کی تحقیق کی کہا قانع وہ ہے جو انتظار کرتا رہے کہ تیرے گھر میں کیا کیا چیزیں آئی ہیں۔ ( اور کاش ان میں سے مجھ کو بھی کچھ مل جائے ) معتر وہ ہے جو وہاں گھومتا رہے اور تیرے دروازے پر امید وار بن کر آئے جائے مگر کسی چیز کا سوال نہ کرے، اور مجاہد سے قانع کے معنی طامع یعنی لالچی کے بھی آئے ہیں اور ایک دفعہ بتلایا کہ سائل مراد ہے اسے ابن ابی حاتم نے روایت کیا ہے اور سعید بن جبیر سے معتر کے وہی معنی نقل ہوئے جو اوپر بیان ہوئے اور مجاہد نے کہا کہ معتر وہ جوغنی ہو یا فقیر خواہش کی وجہ سے قربانی کے جانور کے ارد گرد پھرتا رہے اور خلیل نے قنوع کے معنی بتایاوہ جو ذلیل ہو کر سوال کرے، قنع الیہ کے معنی ” مال“ وہ اس کی طرف جھکا ”وشفع الیہ“ اور اس نے اس کی طرف جس سے کچھ چاہتا ہے چاپلوسی کی، مراد آگے سائل ہے اور قنع بکسر نون رضی کے معنی کے ہے اور قنع فتح نون کے ساتھ ”اذا سال“ کے معنی میں اور حسن کی قرات میں یہاں لفظ معتری پڑھا گیا ہے وہ بھی معتر ہی کے معنی میں ہے۔

1689.

حضرت ابوہریرۃ  ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا وہ قربانی کے جانور کو ہانک رہاتھا۔ آپ نے فرمایا: ’’اس پر سوار ہوجا۔‘‘ اس نے عرض کیا: یہ تو قربانی کا اونٹ ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تجھ پر افسوس ہو!اس پر سوار ہوجا۔‘‘ دوسری یا تیسری مرتبہ یہ الفاظ استعمال فرمائے۔