تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ قربانی کے اونٹوں کی تعداد سو تھی۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1718) ابوداود کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تیس اونٹ خود ذبح کیے اور باقی حضرت علی ؓ کے سپرد کر دیے کہ وہ انہیں نحر کریں۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1764) صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ قربان گاہ تشریف لے گئے، وہاں جا کر تریسٹھ اونٹ خود ذبح کیے اور باقی اونٹ حضرت علی ؓ نے نحر کیے اور آپ نے انہیں اپنی قربانیوں میں شریک کیا۔ پھر ہر اونٹ سے ایک ایک بوٹی لے کر ہنڈیا میں پکایا گیا۔ پھر آپ دونوں نے گوشت کھایا اور شوربا پیا۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:2950(1218)) ابوداود کی روایت کو شیخ البانی ؒ وغیرہ نے منکر اور صحیح مسلم کی روایت کو راجح قرار دیا ہے، تاہم اگر ابوداود کی روایت صحیح ثابت ہو جائے تو پھر ان روایات میں تطبیق اس طرح ہے کہ پہلے آپ نے تیس اونٹ ذبح کیے، پھر حضرت علی ؓ نے سینتیس اونٹ نحر کیے، اس کے بعد پھر رسول اللہ ﷺ نے تینتیس اونٹ اپنے دست مبارک سے ذبح کیے۔ (2) قربانی کی کھالیں غرباء و مساکین میں تقسیم کر دینی چاہئیں۔ انہیں فروخت کر کے ان کی رقم بھی دی جا سکتی ہے۔ قربانی کی کھال کو ڈول یا مصلے کی شکل میں خود بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قربانی اور ہدی کے گوشت کو مت فروخت کرو، خود کھاؤ اور اپنے تصرف میں لاؤ، اسی طرح ان کی کھالیں خود استعمال کرو، انہیں مت فروخت کرو، ان کا گوشت خود بھی کھاؤ اور دوسروں کو بھی کھلاؤ۔‘‘ (مسندأحمد:15/4) بہرحال قصاب کو بطور اجرت دینا منع ہے، ہاں اسے گوشت بطور صدقہ ہدیہ دینا جائز ہے مگر احتیاط اسی میں ہے کہ اسے گوشت نہ دیا جائے کیونکہ اس طرح مزدودی میں وہ کچھ نہ کچھ لحاظ کرے گا۔ (فتح الباري:703/3)