باب:اس بارے میں کہ نماز کا وقت ہو جانے پر پانی کی تلاش ضروری ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: To look for water (for ablution) when the time for the prayer is due)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
’’ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ( ایک سفر میں ) صبح ہو گئی ‘ پانی تلاش کیا گیا، مگر نہیں ملا۔ تو آیت تیمم نازل ہوئی۔‘‘
172.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو اس حالت میں دیکھا کہ نماز عصر کا وقت ہو چکا تھا، لوگوں نے وضو کے لیے پانی تلاش کیا مگر نہ ملا۔ آخر رسول اللہ ﷺ کے پاس (ایک برتن میں) وضو کے لیے پانی لایا گیا تو آپ نے اپنا ہاتھ مبارک اس برتن میں رکھ دیا اور لوگوں کو حکم دیا کہ اس سے وضو کریں۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں: میں نے دیکھا کہ پانی آپ کی انگشت ہائے مبارک کے نیچے سے پھوٹ رہا تھا، یہاں تک کہ سب لوگوں نے وضو کر لیا۔
تشریح:
1۔ اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ وضو کے لیے پانی کی تلاش اس وقت ضروری ہو گی جب نماز کا وقت آ جائے کیونکہ قرآن کریم کے حکم کے مطابق جب نماز کے لیے کھڑے ہونے کا ارادہ ہو تو وضو کرنا چاہیے یعنی طہارت کا یہ فریضہ نماز کا وقت آنے پر عائد ہوتا ہے، اس لیے پانی کی تلاش بھی وقت آنے پر ہی ضروری ہوگی، اس سے پہلے پانی کی تلاش کا مکلف قرارنہیں دیا جا سکتا جس نے وقت آنے پر پانی تلاش کیا اور نہ ملنے کی صورت میں تیمم کیا اسے ملامت نہیں کی جائے گی کہ اس نے قبل از وقت پانی تلاش کیوں نہیں کیا۔ اس سلسلے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ایک بیان نقل کیا گیا ہے کہ ایک سفر میں میرا ہار گم ہو جانے کی وجہ سے قافلے کو اس منزل سے پہلے ٹھہرنا پڑا جہاں پانی ملنے کی توقع تھی پانی نہ ملنے کے سبب پریشانی ہوئی تو آیت تیمم نازل ہوئی عنوان بایں طور ثابت ہوا کہ پانی کی تلاش وقت نماز کے بعد کی گئی۔ پانی نہ ملنے پر لوگوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا کہ تم نے پہلے سے بندوبست کیوں نہ کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ وقت سے پہلے پانی کی تلاش ضروری نہیں۔ 2۔ حدیث انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک معجزے کا ذکر ہے کہ آپ کی انگشت ہائے مبارک سے پانی کے چشمے پھوٹے جس سے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے وضو کیا اس واقعے سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اہم مسئلے پر تنبیہ فرمائی ہے کہ بلاشبہ پانی کی تلاش اس وقت ضروری ہوگی جب نماز کا وقت آجائے گا۔ لیکن تلاش کے بعد پانی نہ ملنے کی صورت کیا ہے؟ وہ اس حدیث سے معلوم ہو رہی ہے کہ پانی نہ ملنے کی معتاد اور غیر معتاد تمام صورتیں ختم ہو جائیں تو تیمم کیا جا سکتا ہے لیکن اگر کسی غیر معتاد طریقے سے پانی ملنے کا امکان ہوتو تیمم جائز نہ ہو گا۔ اگر غیر معتاد صورت بھی ختم ہو جائے تو تیمم جائز ہوگا یعنی جب تک تمام ظاہری اور غیر ظاہری اسباب ختم نہ ہو جائیں اور ہر طرف سے مایوسی نہ ہو جائے اس وقت تک تیمم کرنا جائزنہیں۔ اس حدیث کا عنوان سے گہرا تعلق ہے لیکن جو لوگ احادیث بخاری کے متعلق شبہات و تشکیک پیدا کرنے کے خوگر ہیں وہ کسی انداز میں اس کا اظہار کر دیتے ہیں چنانچہ ’’امام تدبر‘‘ لکھتے ہیں: ’’امام صاحب نے باب میں تعلیق صبح کی نماز کی دی ہے جبکہ روایت نماز عصر سے متعلق ہے اور اس میں تیمم کی نوبت نہیں آئی۔‘‘ (تدبر حدیث: 272/1) یہ ہے ان حضرات کا مبلغ علم اور سوچ بچار کا محور! اب انھیں کون بتائے کہ تعلیق کا واقعہ اور ہے اور روایت میں اس کے علاوہ دوسرا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ 3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس معجزے کو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کئی ایک راوی بیان کرتے ہیں تمام روایات کے پیش نظر معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ واقعات ہیں چنانچہ حسن بصری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معجزہ کسی سفر میں رونما ہوا تھا اور اس میں حاضرین کی تعداد ستر اسی کے لگ بھگ تھی۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3574) جبکہ حضرت قتادۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مدینے کی نواحی آبادی زوراء میں تھے اور اس پانی سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد تین سو کے قریب تھی۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3572) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تعداد واقعات پر محمول کرنے کے علاوہ جمع و تطبیق کی کوئی اور صورت ممکن نہیں۔ (فتح الباري: 714/6) 4۔ بخاری کے شارح ابن بطال نے دعوی کیا ہے کہ یہ واقعہ بے شمار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سامنے رونما ہوا لیکن حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ اسے کوئی دوسرا بیان کرنے والا نہیں۔ (شرح إبن بطال: 264/1) قاضی عیاض نے ان کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس واقعے کو عدد کثیر نے جم غفیر سے نقل کیا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے قاضی عیاض کی تائید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ واقعہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابن عباس رضی اللہ عنہما اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہےاس کے علاوہ پانی کے زیادہ ہونے کے معجزے کو حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حبان الصدائی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی بیان کرتے ہیں جو مختلف کتب حدیث میں مروی ہے۔ (فتح الباري: 715/6) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ان روایات و طرق کے بعد ابن بطال کا نام لے کر ان کے دعوائے بے بنیاد کی تردید کی ہے لیکن جو حضرات تدبر کی آڑ میں احادیث بخاری کا استخفاف اور ان میں تشکیک پیدا کرنے کی سعی نامشکور کرنے کے درپے رہتے ہیں انھوں نے اندھیرے میں بایں الفاظ تیر پھینکا ہے۔’’اس روایت میں ایک مشکل یہ ہے کہ موقع ایسا ہے جب بہت سے لوگوں نے وضو کیا اور یہ معجزہ دیکھا ہو گا۔ لہٰذا یہ واقعہ متعدد طریقوں سے نقل ہونا چاہیے تھا لیکن حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا اور کسی سے اس کی روایت نہیں ہے قاضی عیاض کا دعوی ہے کہ اس کے راوی بے شمار ہیں یہ تواتر سے ثابت ہے اور اس پر اجماع ہے لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ وہ روایات ہیں کہاں! ابن حجر کو بھی یہ بات کھٹکی ہے کہ اتنے اہم واقعہ کے ایک ہی راوی ہیں۔‘‘ (تدبر حدیث: 271/1) اس عبارت میں کس قدر دجل و فریب سے کام لیا ہے اور محدثین کے متعلق کس قدر زہر اگلا ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ دراصل یہ حضرات جاہلی ادب پڑھتے پڑھتے احادیث کے متعلق جہالت کا شکار ہیں۔﴿قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ﴾ اس حدیث کے متعلق دیگر تفصیلات کتاب المناقب میں بیان ہوں گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
171
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
169
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
169
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
169
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
اس معلق روایت کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سند کے ساتھ بھی بیان کیا ہے۔ اس میں وہ واقعہ بھی بیان کیا گیا ہے جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہار کے گم ہونے کی وجہ سے ایک مقام پر پڑاؤ کرنا پڑا جہاں پانی نہیں تھا۔ بالآ خرآیت تیمم نازل ہوئی۔"( صحیح البخاری:التفسیر حدیث4608۔)
’’ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ( ایک سفر میں ) صبح ہو گئی ‘ پانی تلاش کیا گیا، مگر نہیں ملا۔ تو آیت تیمم نازل ہوئی۔‘‘
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو اس حالت میں دیکھا کہ نماز عصر کا وقت ہو چکا تھا، لوگوں نے وضو کے لیے پانی تلاش کیا مگر نہ ملا۔ آخر رسول اللہ ﷺ کے پاس (ایک برتن میں) وضو کے لیے پانی لایا گیا تو آپ نے اپنا ہاتھ مبارک اس برتن میں رکھ دیا اور لوگوں کو حکم دیا کہ اس سے وضو کریں۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں: میں نے دیکھا کہ پانی آپ کی انگشت ہائے مبارک کے نیچے سے پھوٹ رہا تھا، یہاں تک کہ سب لوگوں نے وضو کر لیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ وضو کے لیے پانی کی تلاش اس وقت ضروری ہو گی جب نماز کا وقت آ جائے کیونکہ قرآن کریم کے حکم کے مطابق جب نماز کے لیے کھڑے ہونے کا ارادہ ہو تو وضو کرنا چاہیے یعنی طہارت کا یہ فریضہ نماز کا وقت آنے پر عائد ہوتا ہے، اس لیے پانی کی تلاش بھی وقت آنے پر ہی ضروری ہوگی، اس سے پہلے پانی کی تلاش کا مکلف قرارنہیں دیا جا سکتا جس نے وقت آنے پر پانی تلاش کیا اور نہ ملنے کی صورت میں تیمم کیا اسے ملامت نہیں کی جائے گی کہ اس نے قبل از وقت پانی تلاش کیوں نہیں کیا۔ اس سلسلے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ایک بیان نقل کیا گیا ہے کہ ایک سفر میں میرا ہار گم ہو جانے کی وجہ سے قافلے کو اس منزل سے پہلے ٹھہرنا پڑا جہاں پانی ملنے کی توقع تھی پانی نہ ملنے کے سبب پریشانی ہوئی تو آیت تیمم نازل ہوئی عنوان بایں طور ثابت ہوا کہ پانی کی تلاش وقت نماز کے بعد کی گئی۔ پانی نہ ملنے پر لوگوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا کہ تم نے پہلے سے بندوبست کیوں نہ کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ وقت سے پہلے پانی کی تلاش ضروری نہیں۔ 2۔ حدیث انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک معجزے کا ذکر ہے کہ آپ کی انگشت ہائے مبارک سے پانی کے چشمے پھوٹے جس سے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے وضو کیا اس واقعے سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اہم مسئلے پر تنبیہ فرمائی ہے کہ بلاشبہ پانی کی تلاش اس وقت ضروری ہوگی جب نماز کا وقت آجائے گا۔ لیکن تلاش کے بعد پانی نہ ملنے کی صورت کیا ہے؟ وہ اس حدیث سے معلوم ہو رہی ہے کہ پانی نہ ملنے کی معتاد اور غیر معتاد تمام صورتیں ختم ہو جائیں تو تیمم کیا جا سکتا ہے لیکن اگر کسی غیر معتاد طریقے سے پانی ملنے کا امکان ہوتو تیمم جائز نہ ہو گا۔ اگر غیر معتاد صورت بھی ختم ہو جائے تو تیمم جائز ہوگا یعنی جب تک تمام ظاہری اور غیر ظاہری اسباب ختم نہ ہو جائیں اور ہر طرف سے مایوسی نہ ہو جائے اس وقت تک تیمم کرنا جائزنہیں۔ اس حدیث کا عنوان سے گہرا تعلق ہے لیکن جو لوگ احادیث بخاری کے متعلق شبہات و تشکیک پیدا کرنے کے خوگر ہیں وہ کسی انداز میں اس کا اظہار کر دیتے ہیں چنانچہ ’’امام تدبر‘‘ لکھتے ہیں: ’’امام صاحب نے باب میں تعلیق صبح کی نماز کی دی ہے جبکہ روایت نماز عصر سے متعلق ہے اور اس میں تیمم کی نوبت نہیں آئی۔‘‘ (تدبر حدیث: 272/1) یہ ہے ان حضرات کا مبلغ علم اور سوچ بچار کا محور! اب انھیں کون بتائے کہ تعلیق کا واقعہ اور ہے اور روایت میں اس کے علاوہ دوسرا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ 3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس معجزے کو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کئی ایک راوی بیان کرتے ہیں تمام روایات کے پیش نظر معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ واقعات ہیں چنانچہ حسن بصری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معجزہ کسی سفر میں رونما ہوا تھا اور اس میں حاضرین کی تعداد ستر اسی کے لگ بھگ تھی۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3574) جبکہ حضرت قتادۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مدینے کی نواحی آبادی زوراء میں تھے اور اس پانی سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد تین سو کے قریب تھی۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3572) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تعداد واقعات پر محمول کرنے کے علاوہ جمع و تطبیق کی کوئی اور صورت ممکن نہیں۔ (فتح الباري: 714/6) 4۔ بخاری کے شارح ابن بطال نے دعوی کیا ہے کہ یہ واقعہ بے شمار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سامنے رونما ہوا لیکن حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ اسے کوئی دوسرا بیان کرنے والا نہیں۔ (شرح إبن بطال: 264/1) قاضی عیاض نے ان کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس واقعے کو عدد کثیر نے جم غفیر سے نقل کیا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے قاضی عیاض کی تائید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ واقعہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابن عباس رضی اللہ عنہما اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہےاس کے علاوہ پانی کے زیادہ ہونے کے معجزے کو حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حبان الصدائی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی بیان کرتے ہیں جو مختلف کتب حدیث میں مروی ہے۔ (فتح الباري: 715/6) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ان روایات و طرق کے بعد ابن بطال کا نام لے کر ان کے دعوائے بے بنیاد کی تردید کی ہے لیکن جو حضرات تدبر کی آڑ میں احادیث بخاری کا استخفاف اور ان میں تشکیک پیدا کرنے کی سعی نامشکور کرنے کے درپے رہتے ہیں انھوں نے اندھیرے میں بایں الفاظ تیر پھینکا ہے۔’’اس روایت میں ایک مشکل یہ ہے کہ موقع ایسا ہے جب بہت سے لوگوں نے وضو کیا اور یہ معجزہ دیکھا ہو گا۔ لہٰذا یہ واقعہ متعدد طریقوں سے نقل ہونا چاہیے تھا لیکن حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا اور کسی سے اس کی روایت نہیں ہے قاضی عیاض کا دعوی ہے کہ اس کے راوی بے شمار ہیں یہ تواتر سے ثابت ہے اور اس پر اجماع ہے لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ وہ روایات ہیں کہاں! ابن حجر کو بھی یہ بات کھٹکی ہے کہ اتنے اہم واقعہ کے ایک ہی راوی ہیں۔‘‘ (تدبر حدیث: 271/1) اس عبارت میں کس قدر دجل و فریب سے کام لیا ہے اور محدثین کے متعلق کس قدر زہر اگلا ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ دراصل یہ حضرات جاہلی ادب پڑھتے پڑھتے احادیث کے متعلق جہالت کا شکار ہیں۔﴿قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ﴾ اس حدیث کے متعلق دیگر تفصیلات کتاب المناقب میں بیان ہوں گی۔
ترجمۃ الباب:
اور حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: صبح کی نماز کا وقت آ گیا، پانی تلاش کیا گیا تو نہ ملا، آخر تیمم کی آیت اتری
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم کو مالک نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے خبر دی، وہ انس بن مالک ؓ سے نقل کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ نماز عصر کا وقت آ گیا، لوگوں نے پانی تلاش کیا، جب انھیں پانی نہ ملا، تو رسول اللہ ﷺ کے پاس (ایک برتن میں) وضو کے لیے پانی لایا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس میں اپنا ہاتھ ڈال دیا اور لوگوں کو حکم دیا کہ اسی (برتن) سے وضو کریں۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا آپ کی انگلیوں کے نیچے سے پانی (چشمے کی طرح) ابل رہا تھا۔ یہاں تک کہ (قافلے کے) آخری آدمی نے بھی وضو کر لیا۔
حدیث حاشیہ:
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ ایک پیالہ پانی سے سب لوگوں نے وضو کرلیا۔ وضو کے لیے پانی تلاش کرنا اس سے ثابت ہوا، نہ ملے تو پھر تیمم کرلینا چاہئیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): saw Allah's Apostle (ﷺ) when the 'Asr prayer was due and the people searched for water to perform ablution but they could not find it. Later on (a pot full of) water for ablution was brought to Allah's Apostle (ﷺ) . He put his hand in that pot and ordered the people to perform ablution from it. I saw the water springing out from underneath his fingers till all of them performed the ablution (it was one of the miracles of the Prophet (ﷺ)).