تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان سابق میں انسانی بالوں کی طہارت کا مسئلہ بیان فرمایا تھا۔ اس میں حضرت عطاء کے اثر کے علاوہ دومرفوع روایات بھی پیش فرمائیں۔ احناف بھی اس کے قائل ہیں لیکن وہ ان کے استعمال کو انسانی کرامت کے منافی قراردیتے ہیں۔ وہاں دوسرا مسئلہ کتے کے پس خوردہ کا ذکر کیا۔ اس کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سابق عنوان میں امام زہری رحمۃ اللہ علیہ اور سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال پیش کیے لیکن سؤر کلب (کتے کے جھوٹے) کی اہمیت کے پیش نظر باب درباب کے طور پر یہاں الگ عنوان بندی کی ہے، اس بنا پر مذکورہ عنوان مستقل عنوان نہیں۔ اس مسئلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان کیا ہے؟ اس کے متعلق شراح کی مختلف آراء ہیں، شارح بخاری ابن بطال نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتے اور اس کے پس خوردہ کے متعلق چار احادیث ذکر کی ہیں اور ان احادیث سے ان کی غرض یہ ہے کہ کلب اور سؤر کلب کی طہارت کوثابت کیا جائے۔ (شرح ابن بطال: 266/1) شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے تصرف سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سؤر کلب کی طہارت کے قائل ہیں۔ (فتح الباري: 357/1) لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت نظر اور باریک بینی کے پیش نظر یہ بات بہت بعید معلوم ہوتی ہے کہ وہ سؤر کلب کی طہارت کے قائل ہیں کیونکہ اس کی نجاست قطعیات سے ثابت ہے زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حسب عادت طرفین کی احادیث ذکر کردی ہیں تاکہ قارئین خود فیصلہ کرلیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اس سلسلے میں بیان مذاہب ہے۔ اگر وہ اپنا مختار مسلک بتانا چاہتے تو لفظ سؤر الکلب کے بجائے ’’طھارة سؤر الکلب‘‘ کہتے۔ ہمارے نزدیک امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سؤر الکلب کے سلسلے میں جمہور اہل علم کے ہم نوا ہیں اور اس مقام پر سؤر الکلب کے متعلق نجاست وطہارت کے دلائل پیش کردینا مقصود ہے، چنانچہ اس عنوان کے بعد پہلی حدیث سے اس کی نجاست کا ثبوت پیش نظر ہے اور آگے پیاسے کتے کو پانی پلانے کی حدیث کو طہارت کے استدلال میں پیش کیا ہے۔ امام ابن بطال اور حافظ ابن حجر کی جلالت ِ قدر کے باوجود ہمیں ان کی آراء سے اتفاق نہیں۔ شارح بخاری علامہ عینی لکھتے ہیں کہ عنوان کی پہلی حدیث(جس میں دھونے کا ذکر ہے) سے نجاست کلب کا ثبوت ملتا ہے کیونکہ طہارت (دھونے) کا حکم ہے اور دھونے کا حکم وقوع حدیث یا آلودہ نجاست کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس مقام پر حدث نہیں ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دھونے کا حکم نجاست کی وجہ سے ہے۔ جن حضرات کا خیال ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سؤر کلب کو تو ظاہر ہی کہتے ہیں اور سات باردھونے کو امر تعبدی پر محمول کرتے ہیں، ان کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کیونکہ ظاہر حدیث سے امر تعبدی سمجھنا نہایت بعید ہے۔ پھر صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: (طهور إناء أحدكم) اور دوسری روایت میں ہے: (طهور إناء أحدكم إذا ولغ فيه الكلب أن يغسله) ہیں۔ ان الفاظ کے پیش نظر اگر کتے کا پس خوردہ پاک ہوتا تو اس کے لیے طہور(پاک کرنے) کا لفظ نہ ہوتا اور نہ دوسری روایت کے مطابق اس پانی کو بہا دینے ہی کا حکم ہوتا۔ (عمدۃ القاري :486/2) ہمارے نزدیک علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے وزنی ہے جس کی وجوہات حسب ذیل ہیں: (الف)۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ عنوان میں کوئی ایسا لفظ نہیں لائے جس سے طہات سؤر کلب کو کشید کیا جاسکے۔ جب عنوان میں اس قسم کی صراحت نہیں تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اسے منسوب کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ (ب)۔ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کا اثر بھی سؤر الکلب کی طہارت پر دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ مصنف عبدالرزاق میں ان سے ایک روایت ہے جس میں کتے کے جھوٹے برتن کو تین بار دھونے کا ذکر ہے۔ (المصنف لعبد الرزاق 97/1) یہ مسئلہ تو اس نمازی کی طرح ہے جس کے پاس نجس کپڑے ہوں تو ننگا نماز پڑھنے کے بجائے انہی کپڑوں میں نماز پڑھ لے، جس طرح ان کپڑوں میں نماز پڑھنا ان کے پاک ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتا، اسی طرح بوقت ضرورت نجس پانی سے وضو کرنا اور اس سے نماز ادا کرنا اس کی طہارت کی دلیل کیسے بن سکتا ہے؟ سفیان ثوری کا اثر بھی سور کلب کے پاک ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ اس کی نظیر یہ ہے کہ بعض ائمہ رحمۃ اللہ علیہ کرام نبیذ کی موجودگی میں وضو اور تیمم دونوں کے قائل ہیں۔ پھر ان کا تردد بھی طہارت کے خلاف موقف کو مضبوط کرتا ہے۔ باقی احادیث کے متعلق اپنی گزارشات ان کے فوائد میں بیان کریں گے۔
2۔ یہ حدیث سؤر كلب كے نہ صرف نجس ہونے بلکہ اغلظ النجا سات ہونے پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اس برتن کوسات دفعہ دھونے کا حکم دیا گیا ہے۔ بعض روایات کے الفاظ یہ ہیں: ’’جب کسی برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اس کی پاکیزگی اس طرح ہوگی کہ اسے سات مرتبہ دھویا جائے۔‘‘ (صحیح مسلم ،الطھارة، حدیث :651(279)) بعض روایات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جو کچھ برتن میں ہواسے پھینک دیا جائے، پھر اسے سات مرتبہ دھویا جائے۔ (صحیح مسلم ، الطھارة، حدیث: 648(279)) پھر سات د فعہ دھونے کا حکم ’’امرتعبدی‘‘ نہیں جس کی کوئی ظاہری وجہ معلوم نہیں ہوئی بلکہ طب جدید نے اس کامعقول المعنی ہونا ثابت کردیا ہے، چنانچہ دور حاضر کے اطباء کی تحقیق ہے کہ کتے کے لعاب میں ایسے زہریلے جراثیم ہوتے ہیں جو پانی میں تحلیل ہوکر برتن سے چمٹ جاتے ہیں، انھیں صرف مٹی سے ختم کیا جا سکتا ہے، پھر ان کے زہریلے اثرات ایک دو بار دھونے سے نہیں بلکہ سات بار دھونے سے ختم ہوتے ہیں۔ جس حقیقت تک آج طب جدید کی رسائی ہوئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج سے چودہ سوسال قبل مطلع فرماچکے ہیں۔
3۔ ہمارے ہاں کتب فقہ میں درایت یا شدت احتیاط کے نام سے چند ایسے اصول ملتے ہیں جن سے صحیح احادیث کو بڑی آسانی کے ساتھ رد کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ کسی حدیث کو اس وقت قبول نہ کیا جائے جب اس کے راوی کاعمل اس کے خلاف ہو۔ اس اصول کے پیش نظر مذکورہ حدیث کو رد کیا گیا ہے۔ کیونکہ ان حضرات کے کہنے کے مطابق اس روایت کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے خلاف فتویٰ دیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ حدیث مذکور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک منسوخ ہے۔ اولاً ہم اس اصول کوتسلیم نہیں کرتے کہ راوی حدیث کسی صحابی کافتویٰ یا عمل مروی حدیث کےخلاف ہوتو لازمی طور پر اسے کسی ذریعے سے اس کا نسخ معلوم ہوا ہو گا کیونکہ اس کے بغیر بھی حدیث پر عمل نہ کرنے کی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ مثلاً:حضرت مرثد بن عبداللہ یزنی، حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ابوتمیم نماز مغرب سے پہلے دورکعت پڑھتا ہے، کیا آپ کے لیے یہ بات باعث تعجب نہیں؟حضرت عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں یہ پڑھا کرتے تھے۔ میں نے عرض کیا: اب کیوں نہیں پڑھتے؟ فرمایا: مصروفیات کی وجہ سے نہیں پڑھ سکتا۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1184) دیکھا آپ نے کہ اس مقام پر حدیث کے مطابق عمل نہ کرنے کی وجہ اس کا نسخ نہیں بلکہ ان کی ذاتی مصروفیات ہیں۔ ثانیاً حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس حدیث کے موافق فتویٰ بھی مروی ہے اور جس راوی نے ایسے فتوے کو نقل کیا جو ان کی روایت کے مطابق ہے اس سے ر اجح ہے جس نے ان فتوے کو روایت کے مخالف نقل کیا ہے۔ یہ بات نظری لحاظ سے توظاہری ہے، اسنادی لحاظ سے اس لیے معقول ہے کہ موافقت کی روایت حضرت حماد بن زید سے ہے، سند کے اعتبار سے اس پر کوئی غبار نہیں اور مخالفت والی روایت عبدالملک بن سلیمان نے بیان کی ہے جو پہلی روایت کے اعتبار سے قوت میں بہت کم ہے۔ (فتح الباري :363/1)
4۔ اس روایت میں برتن کو سات مرتبہ دھونے کا ذکر ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ پہلی دفعہ اس برتن کو مٹی سے صاف کرے۔ ( صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 651(279)) نیز حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب کتا برتن میں منہ ڈال دے تو تم اسے سات مرتبہ دھوواور آٹھویں مرتبہ اسے مٹی سے صاف کرو۔‘‘( صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 653(280)) ان روایات کے پیش نظر پہلی دفعہ مٹی سے صاف کیا جائے، پھر سات مرتبہ اسے پانی سے صاف کیا جائے کیونکہ اگرآخری مرتبہ اسے مٹی سے صاف کریں گے تو مٹی دور کرنے کے لیے پھرپانی استعمال کرنا پڑے گا اس طرح اسے دھونے کی تعداد نو ہوجائے گی جس کی حدیث میں گنجائش نہیں ہے، لہذا پہلی دفعہ مٹی سے پھر سات مرتبہ اسے پانی سے دھویا جائے۔ احناف نے اس حدیث کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس طرح کے برتن کوتین دفعہ دھونا ضروری قراردیا ہے۔ (فتح الباري: 363/1)
5۔ طہارت ونجاست کے مسائل میں بعض فقہاء افراط وتفریط کا شکار ہیں۔ احناف کے متعلق آپ نے ملاحظہ کیا کہ انھوں نے شارع علیہ السلام کے الفاظ سے آزاد ہو کر اس مسئلے کو فقہی موشگافیوں کی نذر کرکے الجھا دیا۔ دوسری طرف ظاہری حضرات ہیں ان کی حرفیت پسندی ملاحظہ فرمائیں: ابن حزم لکھتے ہیں کہ اگر کتا برتن میں منہ ڈال کر پانی پی لے تو برتن کا پاک کرنا اورپانی کا بہا دینا ضروری ہے، اس کے برعکس اگر کتا پینے کی بجائے کوئی چیزکھا لے یا اس میں منہ ڈالنے کے بجائے اپنا پاؤں یا دم ڈال دے یا خود گر پڑے، اسی طرح برتن کی بجائے اگر زمین کے کسی گڑھے میں منہ ڈال دے یا انسان کے ہاتھوں میں پانی پی لیے تو ان تمام صورتوں میں نہ تو پانی بہانے کی ضرورت ہے اور نہ برتن ہی کا دھونا ضروری ہے۔ (محلی ابن حزم: 109/2)