باب : بکریوں کو ہار پہنانے کا بیان( لیکن بکریوں کا اشعار کرنا بالاتفاق جائز نہیں )
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The garlanding of sheep)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1721.
حضرت عائشہ ؓسے ایک اور روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کی ہدی (قربانی)کے لیے آپ کے احرام باندھے سے پہلے ہار تیار کیے۔
تشریح:
(1) "هدي" اس جانور کو کہا جاتا ہے جو اللہ کی خوشنودی کے لیے حرم مکی کی طرف روانہ کیا جائے اور وہ کم از کم بکری ہے، اس لیے اونٹ، گائے اور بکری کو بطور ہدی مکہ روانہ کیا جا سکتا ہے، البتہ انہیں ہار پہنانے میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک بکری کو ہار پہنانا مسنون عمل نہیں۔ امام بخاری ؒ نے اس موقف کی تردید میں یہ عنوان قائم کیا ہے اور احادیث پیش کی ہیں۔ اس پر اتفاق ہے کہ اسے اشعار نہ کیا جائے کیونکہ بکری کمزور ہونے کے باعث زخم کی متحمل نہیں ہو سکتی، نیز اس کے بالوں کی وجہ سے اشعار مخفی رہتا ہے جس سے اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ (2) امام بخاری نے اس سلسلے میں چار احادیث پیش کی ہیں جن سے ثابت کیا ہے کہ بکری کو ہدی کے طور پر قلادہ پہنایا جا سکتا ہے: پہلی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بکریوں کو بطور ہدی مکہ مکرمہ روانہ کیا تھا۔ اس حدیث سے مقصود ان حضرات کی تردید کرنا ہے جو بکریوں کو بطور ہدی بھیجنے سے انکار کرتے ہیں۔ دوسری حدیث میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ خود بکریوں کے گلے میں ہار ڈالتے تھے۔ اس روایت پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسے بیان کرنے والے حضرت اسود متفرد (اکیلے) ہیں۔ اس اعتراض کی چنداں حیثیت نہیں کیونکہ اسود ثقہ راوی ہیں اور ان کا تفرد کوئی نقصان نہیں دیتا۔ آخری حدیث حضرت مسروق کے واسطے سے ہے اور اس میں اگرچہ بکریوں کے گلے میں ہار ڈالنے کی صراحت نہیں ہے، تاہم بکری ہدی کے افراد سے ہے اور جو اسے صرف اونٹوں یا گایوں کے لیے خاص کرتا ہے اسے چاہیے کہ دلیل پیش کرے۔ بہرحال بکری کو بطور ہدی مکہ مکرمہ روانہ کیا جا سکتا ہے اور اس کے گلے میں ہار بھی ڈالا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري:692/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1656
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1704
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1704
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1704
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں قال ابن المنذر انکر مالک و اصحاب الرائے تقلیدہا زاد غیرہ و کانہم لم یبلغہم الحدیث و لم نجد لہم حجة الاقول بعضہم انہا تضعف عن التقلید و هی حجة ضعیفة لان المقصود من التقلید العلامة و قد اتفقوا انہا لا تشعر لانہا تضعف عنہ فتقلّد بما لا یضعفہا و الحنفیة فی الاصل یقولون لیست الغنم من الہدی فالحدیث حجة علیہم من جہة اخریٰ الخ ( فتح الباری ) یعنی ابن منذر نے کہا کہ امام مالک اور اصحاب الرائے نے بکریوں کے لیے ہار سے انکار کیا ہے گویا کہ ان کو حدیث نبوی پہنچی ہی نہیں ہے، اور ہم نے ان کے پاس کوئی دلیل بھی نہیں پائی سوائے اس کے کہ وہ کہتے ہیں کہ بکری ہار لٹکانے سے کمزور ہوجائے گی۔ یہ بہت ہی کمزور دلیل ہے کیوں کہ ہار لٹکانے سے اس کو نشان زدہ برائے قربانی حج کرنا مقصود ہے، بکری کا متفقہ طور پر اشعار جائز نہیں ہے۔ اس سے وہ فی الواقع کمزور ہو سکتی ہے اور ہار لٹکانے سے کمزور ہو نے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے اور حنفیہ اصولاً کہتے ہیں کہ بکری ہدی ہی نہیں ہے پس یہ حدیث ان پر دوسرے طریق سے بھی حجت ہے۔ بعض نے کہا کہ بکری ہدی اس لیے نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ شریف کو بکری بطور ہدی نہیں بھیجی۔ یہ خیال غلط ہے کیوں کی حدیث باب دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج سے قبل قطعی طور پر بکری کو بطور ہدی بھیجا پس یہ خیال بھی صحیح نہیں ہے۔
حضرت عائشہ ؓسے ایک اور روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کی ہدی (قربانی)کے لیے آپ کے احرام باندھے سے پہلے ہار تیار کیے۔
حدیث حاشیہ:
(1) "هدي" اس جانور کو کہا جاتا ہے جو اللہ کی خوشنودی کے لیے حرم مکی کی طرف روانہ کیا جائے اور وہ کم از کم بکری ہے، اس لیے اونٹ، گائے اور بکری کو بطور ہدی مکہ روانہ کیا جا سکتا ہے، البتہ انہیں ہار پہنانے میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک بکری کو ہار پہنانا مسنون عمل نہیں۔ امام بخاری ؒ نے اس موقف کی تردید میں یہ عنوان قائم کیا ہے اور احادیث پیش کی ہیں۔ اس پر اتفاق ہے کہ اسے اشعار نہ کیا جائے کیونکہ بکری کمزور ہونے کے باعث زخم کی متحمل نہیں ہو سکتی، نیز اس کے بالوں کی وجہ سے اشعار مخفی رہتا ہے جس سے اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ (2) امام بخاری نے اس سلسلے میں چار احادیث پیش کی ہیں جن سے ثابت کیا ہے کہ بکری کو ہدی کے طور پر قلادہ پہنایا جا سکتا ہے: پہلی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بکریوں کو بطور ہدی مکہ مکرمہ روانہ کیا تھا۔ اس حدیث سے مقصود ان حضرات کی تردید کرنا ہے جو بکریوں کو بطور ہدی بھیجنے سے انکار کرتے ہیں۔ دوسری حدیث میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ خود بکریوں کے گلے میں ہار ڈالتے تھے۔ اس روایت پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسے بیان کرنے والے حضرت اسود متفرد (اکیلے) ہیں۔ اس اعتراض کی چنداں حیثیت نہیں کیونکہ اسود ثقہ راوی ہیں اور ان کا تفرد کوئی نقصان نہیں دیتا۔ آخری حدیث حضرت مسروق کے واسطے سے ہے اور اس میں اگرچہ بکریوں کے گلے میں ہار ڈالنے کی صراحت نہیں ہے، تاہم بکری ہدی کے افراد سے ہے اور جو اسے صرف اونٹوں یا گایوں کے لیے خاص کرتا ہے اسے چاہیے کہ دلیل پیش کرے۔ بہرحال بکری کو بطور ہدی مکہ مکرمہ روانہ کیا جا سکتا ہے اور اس کے گلے میں ہار بھی ڈالا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري:692/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زکریا نے بیان کیا، ان سے عامر نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی قربانی کے لیے خود قلادے بٹے ہیں۔ ان کی مراد احرام سے پہلے کے قلادوں سے تھی۔
حدیث حاشیہ:
تقلید کہتے ہیں قربانی کے جانوروں کے گلوں میں جوتیوں وغیرہ کا ہار بنا کر ڈالنا، یہ عرب کے ملک میں نشان تھا ہدی کا۔ ایسے جانور کوعرب لوگ نہ کوٹتے تھے نہ اس سے متعرض ہوتے، اور اشعار کے معنی خود کتاب میں مذکور ہیں یعنی اونٹ کا کوہان داہنی طرف سے ذرا سا چیر دینا اور خون بہا دینا یہ بھی سنت ہے اور جس نے اس سے منع کیا اس نے غلطی کی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): I twisted (the garlands) for the Hadis of the Prophet (ﷺ) before he assumed Ihram.