تشریح:
(1) حج یا عمرے کے وقت سر منڈوانا افضل ہے اور بال کتروانے جائز ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے دو یا تین مرتبہ بال منڈوانے والوں کے متعلق رحمت و مغفرت کی دعا کی ہے اور ایک دفعہ بال چھوٹے کرانے والوں کے متعلق دعائیہ کلمات ارشاد فرمائے ہیں۔ مذکورہ دعائیہ کلمات آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر بھی کہے تھے جیسا کہ حضرت ام حصین ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر بال منڈوانے والوں کے متعلق تین دفعہ دعا فرمائی اور ایک دفعہ بال ترشوانے والوں کے متعلق دعا کی۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث؛3150(1303)) اور صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی آپ نے اسی طرح دعا فرمائی تھی جیسا کہ ابن اسحاق نے اس کی صراحت کی ہے۔ اہل عرب اپنے بال بھانے اور بطور زینت انہیں لمبا کرنے کے عادی تھے۔ ان کے ہاں منڈوانے کا بالکل رواج نہ تھا، اس لیے صلح حدیبیہ یا حج کے موقع پر انہیں منڈوانا بعض حضرات نے پسند نہ کیا جبکہ اکثریت نے آپ کے کہنے یا آپ کے عمل کو دیکھ کر آپ کا کہا ماننے یا آپ کے طریقے پر عمل کرنے میں جلدی کی، اس لیے آپ نے تین مرتبہ منڈوانے والوں کے لیے دعا فرمائی، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ آپ نے بال منڈوانے والوں کے بارے میں تین دفعہ اور کتروانے والوں کے لیے ایک دفعہ دعا کی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’منڈوانے والوں نے کسی قسم کا تردد نہیں کیا بلکہ میرا حکم ماننے میں پہل کی ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، المناسك، حدیث:3045) (2) واضح رہے کہ اگر حج سے چند دن قبل عمرہ کیا جائے اور اندیشہ ہو کہ حلق کرانے کے بعد دسویں ذوالحجہ تک بال نہیں اُگ سکیں گے تو ایسے حالات میں عمرہ کرنے والے کے لیے بال کتروانا افضل ہے تاکہ حج کے موقع پر حلق ہو سکے۔ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ جن حضرات نے عمرہ کیا تھا انہوں نے اس موقع پر بال چھوٹے کرائے تھے جس کی ہم پہلے وضاحت کر آئے ہیں۔