تشریح:
(1) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی حدیث میں صراحت ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے سر کے بال حجۃ الوداع کے موقع پر منڈوائے تھے اور بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں چھوٹا کرایا تھا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4411) حضرت امیر معاویہ ؓ نے عمرۂ جعرانه کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے بال مبارک قینچی سے چھوٹے کیے تھے کیونکہ یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے بال منڈوائے تھے۔ اور حضرت ابو طلحہ ؓ نے آپ کے بال مبارک لوگوں میں تقسیم کیے تھے۔ اور عمرۂ قضاء جو سات ہجری میں ہوا اس وقت حضرت معاویہ ؓ مسلمان نہیں ہوئے تھے، اس لیے عمرۂ جعرانه میں انہوں نے یہ خدمت سر انجام دی ہو گی۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ حضرت امیر معاویہ ؓ صلح حدیبیہ اور عمرۃ القضاء کے درمیان مسلمان ہو چکے تھے لیکن انہوں نے اپنے والدین سے ڈرتے ہوئے اپنا اسلام پوشیدہ رکھا اور جب رسول اللہ ﷺ عمرۃ القضاء کے موقع پر مکہ مکرمہ تشریف لائے تو اہل مکہ نے مکہ خالی کر دیا تھا تاکہ وہ اہل اسلام کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھ نہ سکیں، ممکن ہے کہ حضرت امیر معاویہ ؓ اس وقت کسی وجہ سے مکہ مکرمہ ہی میں رہے ہوں اور رسول اللہ ﷺ کے بال چھوٹے کرنے کا موقع انہی حالات میں پیش آیا ہو۔ اور جن حضرات نے اس واقعے کو عمرۂ جعرانه سے متعلق بیان کیا ہے وہ اس لیے صحیح نہیں کہ جو حضرات اس وقت آپ ﷺ کے ہمراہ تھے ان میں حضرت معاویہ ؓ موجود نہیں تھے، پھر اس موقع پر آپ کا سر مونڈنے والا بنو بیاضہ کا ایک غلام تھا جس کا نام ابو ہند ہے۔ (فتح الباري:713/3) بہرحال امام بخاری ؒ نے ان روایات سے ثابت کیا ہے کہ احرام کھولتے وقت بالوں کا مونڈنا اور چھوٹے کرنا دونوں جائز ہیں۔ اور مونڈنا افضل ہے کیونکہ اس میں بالکل زینت ختم ہو جاتی ہے اور حاجی کو ترک زینت ہی کا حکم ہے جبکہ بال چھوٹے کرانے میں زینت کا کچھ نہ کچھ حصہ سر پر باقی رہ جاتا ہے۔