تشریح:
1۔ یہ اسلام کی ابتدائی دور کی بات ہے جب مساجد کی حرمت وتکریم کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ اس وقت مسجد کے دروازے بھی نہیں تھے۔ بعد میں مساجد کی حرمت وتکریم کا حکم بھی دیاگیا اور مسجد کے دروازے بھی لگادئیے گئے اوریوں مسجد میں کتوں کی آمدورفت بند ہوگئی۔( فتح الباری 364/1۔ ) 2۔اس حدیث کو بھی سورکلب کی طہارت کے لیے بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے کیونکہ عہد نبوی میں کتے بلاتکلف مسجد میں آتے جاتےتھے پھر کتے کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ کھلے منہ چلتا ہے اور اس کےمنہ سے رال ٹپکتی رہتی ہے،پھر مسجد میں آمدورفت سے اس کے لعاب دہن کا گرنا عین ممکن ہے ،ان سب چیزو ں کے باوجود پانی وغیرہ چھڑکنے کا انتظام نہ تھا،لیکن احکام شریعت میں اس قسم کے توہمات وخیالات کا اعتبار نہیں ہوتا،ہاں اگر کسی نے اس لعاب کا گرنا دیکھا ہو اور اس کے بعد مسجد کو نہ دھویا گیا ہوتو بات بن سکتی ہے۔علمی طور پر (تَوَهُّمِ) نجاست پرنجاست کا حکم لگانا صحیح نہیں،لہذا یہ روایت سورکلب کے پاک ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی۔ہاں اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کے تیسرے حصے کا ثبوت ملتا ہے کہ مسجد میں کتوں کے آنے جانے سے مسجد پلید نہیں ہوتی۔3۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس سے بعض لوگوں نے کتے کے پاک ہونے پر استدلال کیا ہے کہ زمانہ رسالت میں کتے مسجد میں آتے جاتے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اس وجہ سے مسجد کے فرش کو نہیں دھوتے تھے۔کتوں کی طہارت پر یہ استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ بعض روایات میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ کتے مسجد میں پیشاب بھی کرتے تھے۔( سنن ابی داؤد الطھارۃ حدیث 382۔ ) کتے کے پیشاب کے متعلق کسی کو اختلاف نہیں کہ وہ نجس ہے۔امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے اس امر پر استدلال کیا ہے کہ نجس زمین خشک ہوکرپاک ہوجاتی ہے کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین مسجد کو پاک کرنے کے لیے معمولی پانی بھی نہیں چھڑکتے تھے چہ جائے کہ اسے اچھی طرح دھویاجائے۔اگر مسجد خشک ہوکر پاک نہ ہوتی تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اسے یونہی نہ چھوڑتے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ وہ بآواز بلند فرمایا کرتے تھے مسجد میں لغو باتیں کرنے سے اجتناب کرو۔جب بے فائدہ باتوں سے روک دیا گیا تو دوسرے معاملات کے متعلق بھی انھوں نے انتظام کیاہوگا۔( فتح الباری 365/1۔)