باب:اس بیان میں کہ جس پانی سے آدمی کے بال دھوئے جائیں اس پانی کا استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: What is said regarding the water with which human hair has been washed)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
عطاء بن ابی رباح آدمیوں کے بالوں سے رسیاں اور ڈوریاں بنانے میں کچھ حرج نہیں دیکھتے تھے اور کتوں کے جھوٹے اور ان کے مسجد سے گزرنے کا بیان۔ زہری کہتے ہیں کہ جب کتا کسی ( پانی کے بھرے ) برتن میں منہ ڈال دے اور اس کے علاوہ وضو کے لیے اور پانی موجود نہ ہو تو اس سے وضو کیا جا سکتا ہے۔ سفیان کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے سمجھ میں آتا ہے۔ جب پانی نہ پاؤ تو تیمم کر لو اور کتے کا جھوٹا پانی ( تو ) ہے۔ ( مگر ) طبیعت اس سے نفرت کرتی ہے۔ ( بہرحال ) اس سے وضو کر لے۔ اور ( احتیاطاً ) تیمم بھی کر لے۔
174.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، جب نبی اکرم ﷺ نے اپنا سر منڈوایا تو سب سے پہلے حضرت ابوطلحہ ؓ نے آپ کے موئے مبارک لیے تھے۔
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا تھا کہ انسان کے بال بدن سے الگ ہونے کے بعد بھی پاک ہیں، اگر پانی میں گرجائیں تو پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں انھوں نے حضرت عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ کا قول پیش کیا تھا کہ ان سے سوت اور رسیاں بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ احناف کے ہاں بھی بال پاک تو ہیں لیکن ان کی حرمت وتعظیم کی بنا پر ان کے استعمال کی اجازت نہیں۔ بالوں کی طہارت کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اب ایک مرفوع روایت پیش کی ہے۔ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کے تبرکات کا ذکر ہے۔ استدلال بایں طور ہے کہ اگر بال ناپاک ہوتے تو اسے بطور تبرک کیوں رکھا جاتا، لیکن اس استدلال پر اشکال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں سے عام انسانی بالوں کی طہارت کو قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے کیونکہ دعویٰ عام اوردلیل خاص ہے۔ اس بنا پر یہ تقریب ناتمام ہے۔ لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے مذاقِ استدلال کے اعتبار سے یہ درست ہے کیونکہ یہاں دو باتیں ہیں، ایک بالوں کی طہارت اور دوسرا ان سے تبرک حاصل کرنا۔ اب یہ بات کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کی طہارت، آپ کی خصوصیت ہے، اس خصوصیت کے لیے دلیل درکار ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقسیم کے وقت بھی اس خصوصیت کا ذکر نہیں فرمایا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام انسانوں کے بال جسم سے الگ ہو کر پاک رہتے ہیں۔ رہا تبرک کا معاملہ تو مخصوص تبرک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی خاص رہے گا۔ 2۔ مدعیان تدبر کی طرف سے احادیث میں تشکیک پیدا کرنے کے لیے یہ دعویٰ کیا گیا ہے: ’’امام صاحب نے جو باب باندھا تھا وہ اس پانی کے بارے میں تھا جس سے بال دھوئے جائیں یا جس میں کتے نے منہ ڈال دیا ہو، روایتوں میں اس طرح کا کوئی ذکر نہیں ہے۔‘‘ (تدبر حدیث: 274/1) پہلی بات تو یہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ان اشیاء سے متعلق جو وقتاً فوقتاً پانی میں گرتی رہتی ہیں شرعی حکم بتانا ہے کہ ایسی چیزیں پانی میں گرا کر اسے نجس کردیتی ہیں یا نہیں؟ یہاں پانی کا ذکرمحل وقوع کے اعتبار سے تبعاً آگیا ہے، پانی کے مسائل بیان کرنا اصل مقصود نہیں کیونکہ پانی سے متعلقہ مسائل آئندہ بیان کریں گے۔ چونکہ عام طور پر یہ چیزیں پانی میں گرتی ہیں اس لیے یہاں پانی کا ذکر کر دیا ورنہ یہ چیزیں پانی کی طرح کھانے کی چیزوں یا دودھ وغیرہ میں بھی گرتی رہتی ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان میں بالوں کامسئلہ بیان کیا ہے، خواہ وہ پانی میں گریں یاکھانے میں۔ دوسری بات یہ ہے کہ پانی میں بالوں کے گرنے یا ڈالنے کا ذکر دوسری روایات میں موجود ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن موہب کہتے ہیں کہ مجھے میرے گھر والوں نے پانی کا ایک پیالہ دے کر ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بھیجا کیونکہ ان کے پاس ایک خوبصورت چاندی کی ڈبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک محفوظ تھے۔ آپ انھیں پانی میں ڈال کر ہلاتیں پھر وہ پانی نظر بد یا بخار والے مریض کو پلایا جاتا۔ میں نے اس وقت ڈبیہ میں سرخ رنگ کے موئے مبارک دیکھے تھے۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5896) باقی رہا کتے کا پانی میں منہ ڈالنے کا معاملہ، تو اس پرامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب در باب کے طور پرآئندہ ایک مستقل عنوان قائم کیا ہےاور اس کے متعلق روایات بھی ذکر کی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک کے متعلق اس طرح کا والہانہ اظہار عقیدت حضرات ’’تدبر‘‘ کی مزعومہ عقلیت پسندی کے خلاف تھا، اس لیے حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر’’جذباتی اور جوشیلے‘‘ ہونے کی پھبتی کسی ہے کیونکہ انھوں نے آپ کے بالوں کو محفوظ کیا تھا۔ اور جن روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود انھیں بال تقسیم کرنے پر مامور کیا تھا اور انھیں موئے مبارک اس مقصد کے لیے عطا فرمائے تھے وہ تمام روایات ان کے نزدیک محل نظر ہیں۔ (تدبرحدیث: 273/1) 3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں سے یہ حسن عقیدت تنہا ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہ تھی بلکہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اسی قسم کے جذبات تھے چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جبکہ حجام آپ کے سرمبارک کو صاف کررہا تھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کے گرد تھے، وہ چاہتے تھے کہ آپ کا کوئی بال زمین پر گرنے کے بجائے کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرے۔‘‘ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 6043(2325)) بلکہ عروہ بن مسعود کا بیان اس سے بھی زیادہ حیران کن ہے کیونکہ وہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت وعقیدت بایں الفاظ بیان کرتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرتے ہیں تو آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین زمین پر گرنے والے پانی کو لینے دوڑ پڑتے ہیں جب آپ لعاب دہن تھوکتے ہیں توجلدی سے اسے اپنے ہاتھوں اورچہروں پرمل لیتے ہیں اور جب کبھی آپ کا موئے مبارک گرتا ہے تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔‘‘(صحیح البخاري، الشروط، حدیث: 2731،2732، و مسند احمد: 324/4) اس مسئلہ کی مزید تفصیل كتاب اللباس میں آئے گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
173
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
171
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
171
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
171
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
حضرت عطاء بن ابی رباح کے اس قول کو محمد بن اسحاق فاکہی نے صحیح سند کے ساتھ اپنی کتاب "اخبارمکہ"میں بیان کیا ہے کہ وہ حج کے موقع پر منیٰ میں جمع شدہ انسانی بالوں سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔( اخبار مکہ 4/255۔)اسی طرح امام زہری کے قول کو ولید بن مسلم نے اپنی تصنیف میں ذکر کیا ہے سفیان ثوری کا اثر بھی اسی کتاب میں منقول ہے امام ابن عبدالبر نے اپنی کتاب التمہید میں بھی ذکر کیا ہے۔( التمہید لا بن عبدالبر:18/274۔) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت تین مسئلے بیان کیے ہیں۔1۔انسانی بالوں کا حکم جب انھیں جسم سے الگ کردیا جائے۔2۔کتے کے پس خوردہ کی شرعی حیثیت3۔مسجد میں کتوں کے آنے جانے کا حکم پہلے مسئلے کا مداراس بات پر ہے کہ انسانی بال جسم سے الگ ہونے کے بعد طہارت پر قائم رہتے ہیں یا ناپاک ہو جاتے ہیں؟ اگر ناپاک ہیں تو ان کے پانی میں گرنے سے پانی بھی ناپاک ہو جائے گا اور اگر ناپاک نہیں ہیں تو ان کے گرنے سے پانی ناپاک نہیں ہو گا۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ انسان کے جسم سے بال الگ ہو کر ناپاک ہو جاتے ہیں جبکہ جمہور علماء کے نزدیک وہ اپنی طہارت پر قائم رہتے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان جمہور کی طرف معلوم ہوتا ہے کہ انسانی بال جسم سے الگ ہونے کے بعد ناپاک نہیں ہوتے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا قول قدیم بھی ان بالوں کی طہارت کے متعلق ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل فرماتے تھے توبالوں کی جڑوں تک پانی پہنچانے کے لیے ان کا خلال بھی کرتے تھے ایسا کرنےسے عموماً مردہ بال گرجاتے ہیں بعض اوقات پانی میں گرنے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے پانی کے متعلق اجتناب کا کوئی حکم یا عمل مروی نہیں۔( فتح الباری:1/356۔) کتے کے پس خوردہ کے متعلق امام بخاری کا موقف کیا ہے؟ شارحین نے مختلف آراء کا اظہار کیا ہے۔ علامہ عینی اور بعض دوسرے شراح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو جمہور کے ساتھ رکھتے ہیں کہ امام صاحب اس کی نجاست کا موقف رکھتے ہیں یعنی اگر کتا کسی برتن میں منہ ڈال دے تو پانی ناپاک ہو جائے گا اور برتن کو دھونا ضروری ہوگا البتہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ ولی اللہ کا رجحان یہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کتے کا پس خورودہ پاک ہے باقی رہا برتن کا دھونا تو وہ ایک تعبدی امر ہے ہمارا رجحان اس کے متعلق پہلے موقف کی طرف ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی سلسلے میں امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کا قول پیش کیا ہے کہ ان کے نزدیک اگر دوسرا پانی مل جائے تو یہ پانی ناپاک ہے جس میں کتے نے منہ ڈال دیا ہے اس سے وضو جائز نہیں اگر دوسرا پانی نہ ملے تو بامر مجبوری اس سے وضو کیا جاسکتا ہے سفیان ثوری کے نزدیک یہ پانی مشکوک ہے لہٰذا وضو اور تیمم دونوں کر لے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک پانی کی نجاست کا دارومدار اس کی تبدیلی پر ہے اگر تغیر ہو تو ناپاک بصورت دیگر پاک ہے۔ پانی میں بالوں کے گرنے سے کوئی تغیر نہیں ہوتا اس لیے پانی پاک ہے اسی طرح ولوغ کلب سے بھی کوئی تبدیلی نہیں آتی لہٰذا جب بالوں کے گرنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا تو کتے کے ولوغ (چاٹنے )سے بھی ناپاک نہیں ہوگا اسی مناسبت سے بالوں کے بعد ولوغ کلب کا ذکر فرمایا ہے کتے کے پس خوردہ کے متعلق چار مذاہب ہیں 1۔ جمہور فقہاء کا موقف ہے کہ ولوغ کلب سے برتن اور پانی دونوں ناپاک ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی رجحان ہے2۔ مالکیہ اور ظاہر یہ کہتے ہیں کہ پانی پاک ہے البتہ برتن کو دھونے کا حکم تعبدی ہے 3۔امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں بوقت ضرورت پاک ہے۔4۔ سفیان ثوری کے نزدیک مشکوک ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی یہ عادت ہے کہ جب وہ کسی باب میں دونوں جانب قوت دیکھتے ہیں تو دونوں طرف کی احادیث ذکر کر دیتے ہیں تاکہ قاری خود دلائل کا موازنہ کر کے فیصلہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے عنوان میں کتے کے جو ٹھے کا ذکر کیا ہے اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں دیا۔
عطاء بن ابی رباح آدمیوں کے بالوں سے رسیاں اور ڈوریاں بنانے میں کچھ حرج نہیں دیکھتے تھے اور کتوں کے جھوٹے اور ان کے مسجد سے گزرنے کا بیان۔ زہری کہتے ہیں کہ جب کتا کسی ( پانی کے بھرے ) برتن میں منہ ڈال دے اور اس کے علاوہ وضو کے لیے اور پانی موجود نہ ہو تو اس سے وضو کیا جا سکتا ہے۔ سفیان کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے سمجھ میں آتا ہے۔ جب پانی نہ پاؤ تو تیمم کر لو اور کتے کا جھوٹا پانی ( تو ) ہے۔ ( مگر ) طبیعت اس سے نفرت کرتی ہے۔ ( بہرحال ) اس سے وضو کر لے۔ اور ( احتیاطاً ) تیمم بھی کر لے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، جب نبی اکرم ﷺ نے اپنا سر منڈوایا تو سب سے پہلے حضرت ابوطلحہ ؓ نے آپ کے موئے مبارک لیے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا تھا کہ انسان کے بال بدن سے الگ ہونے کے بعد بھی پاک ہیں، اگر پانی میں گرجائیں تو پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں انھوں نے حضرت عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ کا قول پیش کیا تھا کہ ان سے سوت اور رسیاں بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ احناف کے ہاں بھی بال پاک تو ہیں لیکن ان کی حرمت وتعظیم کی بنا پر ان کے استعمال کی اجازت نہیں۔ بالوں کی طہارت کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اب ایک مرفوع روایت پیش کی ہے۔ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کے تبرکات کا ذکر ہے۔ استدلال بایں طور ہے کہ اگر بال ناپاک ہوتے تو اسے بطور تبرک کیوں رکھا جاتا، لیکن اس استدلال پر اشکال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں سے عام انسانی بالوں کی طہارت کو قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے کیونکہ دعویٰ عام اوردلیل خاص ہے۔ اس بنا پر یہ تقریب ناتمام ہے۔ لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے مذاقِ استدلال کے اعتبار سے یہ درست ہے کیونکہ یہاں دو باتیں ہیں، ایک بالوں کی طہارت اور دوسرا ان سے تبرک حاصل کرنا۔ اب یہ بات کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کی طہارت، آپ کی خصوصیت ہے، اس خصوصیت کے لیے دلیل درکار ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقسیم کے وقت بھی اس خصوصیت کا ذکر نہیں فرمایا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام انسانوں کے بال جسم سے الگ ہو کر پاک رہتے ہیں۔ رہا تبرک کا معاملہ تو مخصوص تبرک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی خاص رہے گا۔ 2۔ مدعیان تدبر کی طرف سے احادیث میں تشکیک پیدا کرنے کے لیے یہ دعویٰ کیا گیا ہے: ’’امام صاحب نے جو باب باندھا تھا وہ اس پانی کے بارے میں تھا جس سے بال دھوئے جائیں یا جس میں کتے نے منہ ڈال دیا ہو، روایتوں میں اس طرح کا کوئی ذکر نہیں ہے۔‘‘ (تدبر حدیث: 274/1) پہلی بات تو یہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ان اشیاء سے متعلق جو وقتاً فوقتاً پانی میں گرتی رہتی ہیں شرعی حکم بتانا ہے کہ ایسی چیزیں پانی میں گرا کر اسے نجس کردیتی ہیں یا نہیں؟ یہاں پانی کا ذکرمحل وقوع کے اعتبار سے تبعاً آگیا ہے، پانی کے مسائل بیان کرنا اصل مقصود نہیں کیونکہ پانی سے متعلقہ مسائل آئندہ بیان کریں گے۔ چونکہ عام طور پر یہ چیزیں پانی میں گرتی ہیں اس لیے یہاں پانی کا ذکر کر دیا ورنہ یہ چیزیں پانی کی طرح کھانے کی چیزوں یا دودھ وغیرہ میں بھی گرتی رہتی ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان میں بالوں کامسئلہ بیان کیا ہے، خواہ وہ پانی میں گریں یاکھانے میں۔ دوسری بات یہ ہے کہ پانی میں بالوں کے گرنے یا ڈالنے کا ذکر دوسری روایات میں موجود ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن موہب کہتے ہیں کہ مجھے میرے گھر والوں نے پانی کا ایک پیالہ دے کر ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بھیجا کیونکہ ان کے پاس ایک خوبصورت چاندی کی ڈبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک محفوظ تھے۔ آپ انھیں پانی میں ڈال کر ہلاتیں پھر وہ پانی نظر بد یا بخار والے مریض کو پلایا جاتا۔ میں نے اس وقت ڈبیہ میں سرخ رنگ کے موئے مبارک دیکھے تھے۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5896) باقی رہا کتے کا پانی میں منہ ڈالنے کا معاملہ، تو اس پرامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب در باب کے طور پرآئندہ ایک مستقل عنوان قائم کیا ہےاور اس کے متعلق روایات بھی ذکر کی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک کے متعلق اس طرح کا والہانہ اظہار عقیدت حضرات ’’تدبر‘‘ کی مزعومہ عقلیت پسندی کے خلاف تھا، اس لیے حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر’’جذباتی اور جوشیلے‘‘ ہونے کی پھبتی کسی ہے کیونکہ انھوں نے آپ کے بالوں کو محفوظ کیا تھا۔ اور جن روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود انھیں بال تقسیم کرنے پر مامور کیا تھا اور انھیں موئے مبارک اس مقصد کے لیے عطا فرمائے تھے وہ تمام روایات ان کے نزدیک محل نظر ہیں۔ (تدبرحدیث: 273/1) 3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں سے یہ حسن عقیدت تنہا ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہ تھی بلکہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اسی قسم کے جذبات تھے چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جبکہ حجام آپ کے سرمبارک کو صاف کررہا تھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کے گرد تھے، وہ چاہتے تھے کہ آپ کا کوئی بال زمین پر گرنے کے بجائے کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرے۔‘‘ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 6043(2325)) بلکہ عروہ بن مسعود کا بیان اس سے بھی زیادہ حیران کن ہے کیونکہ وہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت وعقیدت بایں الفاظ بیان کرتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرتے ہیں تو آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین زمین پر گرنے والے پانی کو لینے دوڑ پڑتے ہیں جب آپ لعاب دہن تھوکتے ہیں توجلدی سے اسے اپنے ہاتھوں اورچہروں پرمل لیتے ہیں اور جب کبھی آپ کا موئے مبارک گرتا ہے تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔‘‘(صحیح البخاري، الشروط، حدیث: 2731،2732، و مسند احمد: 324/4) اس مسئلہ کی مزید تفصیل كتاب اللباس میں آئے گی۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عطاء انسانی بالوں سے سوت اور رسیاں بنانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے، نیز کتوں کے جوٹھے پانی اور ان کے مسجد میں آنے جانے کا حکم۔ حضرت امام زہری فرماتے ہیں کہ جب کتا برتن میں منہ ڈال جائے اور اس کے علاوہ پانی نہ ہو تو اسی سے وضو کر لیا جائے۔ حضرت سفیان کہتے ہیں: ارشاد باری: "تم پانی نہ پاؤ تو تیمم کر لو" سے یہی بات سمجھ میں آئی ہے کیونکہ کتے کا جوٹھا بھی پانی ہی ہے لیکن اس کے استعمال سے دل میں کراہت پیدا ہوتی ہے، لہذا اس پانی سے وضو بھی کر لے اور تیمم بھی کر لے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم کو سعید بن سلیمان نے خبر دی انھوں نے کہا ہم سے عباد نے ابن عون کے واسطے سے بیان کیا۔ وہ ابن سیرین سے، وہ حضرت انس بن مالک ؓ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے (حجۃ الوداع میں) جب سر کے بال منڈوائے تو سب سے پہلے ابوطلحہ ؓ نے آپ کے بال لیے تھے۔
حدیث حاشیہ:
سید المحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض اس حدیث سے انسان کے بالوں کی پاکی اور طہارت بیان کرنا مقصود ہے۔ پھر ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے بالوں کو تبرک کے لیے لوگوں میں تقسیم فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): When Allah's Apostle (ﷺ) got his head shaved, Abu- Talha was the first to take some of his hair.