تشریح:
1۔ اس روایت میں صرف آواز کے ساتھ اخراج ریح کو حدث قرار دیا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث مختصر ہے۔ اس سے پہلے حدیث نمبر:135 میں وضاحت ہے کہ حدث دونوں صورتوں میں ہو سکتا ہے۔ آواز کے ساتھ بھی اور بغیر آواز کے بھی۔ چونکہ نماز اور مسجد کا ذکر ہو رہا تھا اور نماز میں اکثر وبیشتر یہی حدث لاحق ہوتا ہے، اس لیے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صرف اسی چیز کا ذکر کیا جو اس حالت میں زیادہ پیش آنے والی تھی۔ قبل ازیں ظاہری نجاست کا ذکر تھا، اب نجاست باطنی کو بیان کیا جارہا ہے، چونکہ سوال مسجد میں انتظار نماز سے متعلق تھا، اس لیے جواب بھی خاص دیا گیا اور جس ناقض وضو کا احتمال وقوعی ہوسکتا تھا اسے ذکر کردیا گیا، احتمال عقلی سے تعرض نہیں کیا گیا۔ (فتح الباري: 370/1)
2۔ اس حدیث کے دیگرطرق سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے شخص کے لیے فرشتے رحمت ومغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ مسجد میں کسی دوسرے کی اذیت کا باعث نہیں بنتا۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 477) اس حدیث سے مندرجہ ذیل فوائد کا استنباط ہوتا ہے: (الف)۔ انتظار نماز کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، کیونکہ عبادت کاانتظار بھی عبادت ہی شمارہوتا ہے۔ (ب)۔ جو نماز کے اسباب میں منہمک ہوتا ہے وہ بھی نمازی شمارہوتا ہے۔ (ج) یہ فضیلت اس شخص کے لیے ہے جو بے وضو نہ ہو، خواہ اس کا نقض وضو کسی سبب بھی ہو۔ (د) انتظار نماز، نماز ہی سے ہے، اس کامطلب یہ ہے کہ اسے نماز کا ثواب ملتا ہے، کیونکہ نماز میں رہنے والے کو دوسرے سے بات چیت کرنا منع ہے، جبکہ انتظار کرنے والے پر بات چیت کرنے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ (عمدة القاري: 507/2)