Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: If a dog drinks from the utensil of any one of you then it is essential to wash it seven times)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
177.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کتے مسجد میں (پیشاب کرتے اور) آتے جاتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم وہاں کسی جگہ پر پانی نہیں چھڑکتے تھے۔
تشریح:
1۔ یہ اسلام کی ابتدائی دور کی بات ہے جب مساجد کی حرمت وتکریم کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ اس وقت مسجد کے دروازے بھی نہیں تھے۔ بعد میں مساجد کی حرمت وتکریم کا حکم بھی دیاگیا اور مسجد کے دروازے بھی لگادئیے گئے اوریوں مسجد میں کتوں کی آمدورفت بند ہوگئی۔( فتح الباری 364/1۔ ) 2۔اس حدیث کو بھی سورکلب کی طہارت کے لیے بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے کیونکہ عہد نبوی میں کتے بلاتکلف مسجد میں آتے جاتےتھے پھر کتے کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ کھلے منہ چلتا ہے اور اس کےمنہ سے رال ٹپکتی رہتی ہے،پھر مسجد میں آمدورفت سے اس کے لعاب دہن کا گرنا عین ممکن ہے ،ان سب چیزو ں کے باوجود پانی وغیرہ چھڑکنے کا انتظام نہ تھا،لیکن احکام شریعت میں اس قسم کے توہمات وخیالات کا اعتبار نہیں ہوتا،ہاں اگر کسی نے اس لعاب کا گرنا دیکھا ہو اور اس کے بعد مسجد کو نہ دھویا گیا ہوتو بات بن سکتی ہے۔علمی طور پر (تَوَهُّمِ) نجاست پرنجاست کا حکم لگانا صحیح نہیں،لہذا یہ روایت سورکلب کے پاک ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی۔ہاں اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کے تیسرے حصے کا ثبوت ملتا ہے کہ مسجد میں کتوں کے آنے جانے سے مسجد پلید نہیں ہوتی۔3۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس سے بعض لوگوں نے کتے کے پاک ہونے پر استدلال کیا ہے کہ زمانہ رسالت میں کتے مسجد میں آتے جاتے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اس وجہ سے مسجد کے فرش کو نہیں دھوتے تھے۔کتوں کی طہارت پر یہ استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ بعض روایات میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ کتے مسجد میں پیشاب بھی کرتے تھے۔( سنن ابی داؤد الطھارۃ حدیث 382۔ ) کتے کے پیشاب کے متعلق کسی کو اختلاف نہیں کہ وہ نجس ہے۔امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے اس امر پر استدلال کیا ہے کہ نجس زمین خشک ہوکرپاک ہوجاتی ہے کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین مسجد کو پاک کرنے کے لیے معمولی پانی بھی نہیں چھڑکتے تھے چہ جائے کہ اسے اچھی طرح دھویاجائے۔اگر مسجد خشک ہوکر پاک نہ ہوتی تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اسے یونہی نہ چھوڑتے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ وہ بآواز بلند فرمایا کرتے تھے مسجد میں لغو باتیں کرنے سے اجتناب کرو۔جب بے فائدہ باتوں سے روک دیا گیا تو دوسرے معاملات کے متعلق بھی انھوں نے انتظام کیاہوگا۔( فتح الباری 365/1۔)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
175
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
174
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
174
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
174
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کتے مسجد میں (پیشاب کرتے اور) آتے جاتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم وہاں کسی جگہ پر پانی نہیں چھڑکتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ یہ اسلام کی ابتدائی دور کی بات ہے جب مساجد کی حرمت وتکریم کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ اس وقت مسجد کے دروازے بھی نہیں تھے۔ بعد میں مساجد کی حرمت وتکریم کا حکم بھی دیاگیا اور مسجد کے دروازے بھی لگادئیے گئے اوریوں مسجد میں کتوں کی آمدورفت بند ہوگئی۔( فتح الباری 364/1۔ ) 2۔اس حدیث کو بھی سورکلب کی طہارت کے لیے بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے کیونکہ عہد نبوی میں کتے بلاتکلف مسجد میں آتے جاتےتھے پھر کتے کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ کھلے منہ چلتا ہے اور اس کےمنہ سے رال ٹپکتی رہتی ہے،پھر مسجد میں آمدورفت سے اس کے لعاب دہن کا گرنا عین ممکن ہے ،ان سب چیزو ں کے باوجود پانی وغیرہ چھڑکنے کا انتظام نہ تھا،لیکن احکام شریعت میں اس قسم کے توہمات وخیالات کا اعتبار نہیں ہوتا،ہاں اگر کسی نے اس لعاب کا گرنا دیکھا ہو اور اس کے بعد مسجد کو نہ دھویا گیا ہوتو بات بن سکتی ہے۔علمی طور پر (تَوَهُّمِ) نجاست پرنجاست کا حکم لگانا صحیح نہیں،لہذا یہ روایت سورکلب کے پاک ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی۔ہاں اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کے تیسرے حصے کا ثبوت ملتا ہے کہ مسجد میں کتوں کے آنے جانے سے مسجد پلید نہیں ہوتی۔3۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس سے بعض لوگوں نے کتے کے پاک ہونے پر استدلال کیا ہے کہ زمانہ رسالت میں کتے مسجد میں آتے جاتے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اس وجہ سے مسجد کے فرش کو نہیں دھوتے تھے۔کتوں کی طہارت پر یہ استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ بعض روایات میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ کتے مسجد میں پیشاب بھی کرتے تھے۔( سنن ابی داؤد الطھارۃ حدیث 382۔ ) کتے کے پیشاب کے متعلق کسی کو اختلاف نہیں کہ وہ نجس ہے۔امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے اس امر پر استدلال کیا ہے کہ نجس زمین خشک ہوکرپاک ہوجاتی ہے کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین مسجد کو پاک کرنے کے لیے معمولی پانی بھی نہیں چھڑکتے تھے چہ جائے کہ اسے اچھی طرح دھویاجائے۔اگر مسجد خشک ہوکر پاک نہ ہوتی تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اسے یونہی نہ چھوڑتے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ وہ بآواز بلند فرمایا کرتے تھے مسجد میں لغو باتیں کرنے سے اجتناب کرو۔جب بے فائدہ باتوں سے روک دیا گیا تو دوسرے معاملات کے متعلق بھی انھوں نے انتظام کیاہوگا۔( فتح الباری 365/1۔)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
احمد بن شبیب نے کہا کہ ہم سے میرے والد نے یونس کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابن شہاب سے نقل کرتے ہیں، انھوں نے کہا مجھ سے حمزہ بن عبداللہ نے اپنے باپ (یعنی حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ) کے واسطے سے بیان کیا۔ وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کتے مسجد میں آتے جاتے تھے لیکن لوگ ان جگہوں پر پانی نہیں چھڑکتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ یہ معاملہ اسلام کے ابتدائی دور میں تھا جب کہ مسجد کے کواڑ وغیرہ بھی نہ تھے، اس کے بعد جب مساجد کے بارے میں احترام واہتمام کا حکم نازل ہوا تو اس طرح کی سب باتوں سے منع کردیا گیا، جیسا کہ عبداللہ بن عمر کی روایت میں ہے کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے فرمایا کہ لوگو! مسجد میں بے ہودہ بات کرنے سے پرہیز کیا کرو، سو جب لغو باتوں سے روک دیا گیا، تو دوسرے امورکا حال بھی بدرجہ اولیٰ معلوم ہوگیا۔ اسی لیے اس سے پہلے حدیث میں کتے کے جھوٹے برتن کو سات مرتبہ دھونے کا حکم آیا۔ اب وہی حکم باقی ہے۔ جس کی تائید اور بہت سی احادیث سے ہوتی ہے۔ بلکہ بعض روایات میں کتے کے جھوٹے برتن کے بارے میں اتنی تاکید آئی ہے کہ اسے پانی کے علاوہ آٹھویں بار مٹی سے صاف کرنے کا بھی حکم ہے۔ مٹی سے اول مرتبہ دھونا چاہئیے پھر سات دفعہ پانی سے دھونا چاہئیے۔ اس مسئلہ میں احناف اور اہل حدیث کا اختلاف: کتے کے جھوٹے برتن کو سات بار پانی سے دھونا اور ایک بار صرف مٹی سے مانجھنا واجب ہے۔ یہ اہل حدیث کا مذہب ہے اور صرف تین بار پانی سے دھونایہ حنفیہ کا مذہب ہے۔ سرتاج علمائے اہل حدیث حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری قدس سرہ فرماتے ہیں۔ قال الشوکانی فی النیل یدل علی وجوب الغسلات السبع فی ولوغ الکلب والیہ ذہب ابن عباس و عروۃ بن الزبیر و محمد بن سیرین و طاووس و عمروبن دینار والاوزاعی ومالک و الشافعی واحمد بن حنبل واسحاق و ابوثور و ابوعبیدۃ و داود انتہی۔ وقال النووی وجوب غسل نجاسۃ ولوغ الکلب سبع مرات وہذا مذہبنا و مذہب مالک و الجماہیر۔ وقال ابوحنیفۃ یکفی غسلہ ثلاث مرات انتہی۔ وقال الحافظ فی الفتح واما الحنفیۃ فلم یقولوا بوجوب السبع ولا التترتیب۔ ( تحفۃ الاحوذی،ج1،ص: 93 ) خلاصہ اس عبارت کا یہی ہے کہ ان احادیث کی بنا پر جمہورعلمائے اسلام، صحابہ کرام و تابعین وائمہ ثلاثہ و دیگر محدثین کا مذہب یہی ہے کہ سات مرتبہ دھویا جائے۔ برخلاف اس کے حنفیہ صرف تین ہی دفعہ دھونے کے قائل ہیں۔ اور ان کی دلیل وہ حدیث ہے جسے طبرانی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تمہارے کسی برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اسے تین بار یاپانچ بار یا سات بار دھوڈالو۔ جواب اس کا یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس لیے کہ شیخ ابن ہمام حنفی نے فتح القدیر میں لکھا ہے کہ حسب وضاحت امام دارقطنی اس کی سند میں ایک راوی عبدالوہاب نامی متروک ہے، جس نے اسماعیل نامی اپنے استاد سے اس حدیث کو اس طرح بیان کیا۔ حالانکہ ان ہی اسماعیل سے دوسرے راوی اسی حدیث کو روایت کرتے ہیں۔ جنھوں نے سات بار دھونا نقل کیا ہے۔ دوسرا جواب یہ کہ یہ حدیث دار قطنی میں ہے جو طبقہ ثالثہ کی کتاب ہے اور سنن ابن ماجہ میں یہ روایت ہے۔ اخرج ابن ماجۃ عن ابی رزین قال رایت اباہریرۃ یضرب جبہتہ بیدہ ویقول یا اہل العراق انتم تزعمون انی اکذب علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم لیکون لکم الہنا وعلی الاثم اشہد سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم یقول اذا ولغ الکلب فی اناءاحدکم فلیغسلہ سبع مرات۔ ( تحفۃ الاحوذی،ج1،ص: 94 ) یعنی ابورزین کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا آپ اظہار افسوس کرتے ہوئے اپنی پیشانی پر ہاتھ ماررہے تھے اور فرما رہے تھے کہ اے عراقیو! تم ایسا خیال رکھتے ہو کہ میں تمہاری آسانی کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھوں اور گنہگار بنوں۔ یاد رکھو میں گواہی دیتاہوں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایاکہ جب کتا تمہارے برتن میں منہ ڈالے تواسے سات مرتبہ دھو ڈالو۔ معلوم ہوا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے تین بار دھونے کی روایت ناقابل اعتبارہے۔ علامہ عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے دلائل خلافیہ پر منصفانہ روشنی ڈالی ہے۔ ( دیکھو سعایہ، ص: 451 ) بعض لوگوں کو وہم ہوا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک کتا اور کتے کا جھوٹا پاک ہے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ بعض علماءمالکیہ وغیرہ کہتے ہیں کہ ان حادیث سے امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض کتے کی اور اس کے جھوٹے کی پاکی ثابت کرنا ہے اور بعض علماءکہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ غرض نہیں ہے۔ بلکہ آپ نے صرف لوگوں کے مذہب بیان کئے ہیں۔ وہ خود اس کے قائل نہیں ہیں، اس لیے کہ ترجمہ میں آپ نے صرف کتے کے جھوٹے کا نام لیا۔یوں نہیں کہا کہ کتے کا جھوٹا پاک ہے۔ حدیث بخاری کے ذیل میں شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب مبارک پوری فرماتے ہیں: وفی الحدیث دلیل علی نجاسۃ فم الکلب من حیث الامر بالغسل لما ولغ فیہ والا راقۃ للمائ۔ ( مرعاۃ، ج 1، ص: 324 ) یعنی اس حدیث مذکورہ سے بخاری میں دلیل ہے کہ کتے کا منہ ناپاک ہے اسی لیے جس برتن میں وہ منہ ڈال دے اسے دھونے اور اس پانی کے بہادینے کاحکم ہوا۔ اگر اس کا منہ پاک ہوتا تو پانی کو اس طور پر ضائع کرنے کا حکم نہ دیا جاتا۔ منہ کے ناپاک ہونے کا مطلب اس کے تمام جسم کا ناپاک ہونا ہے۔ کلب معلم وہ کتاجس میں اطاعت شعاری کا مادہ بدرجہ اتم ہو اور جب بھی وہ شکار کرے کبھی اس میں سے خود کچھ نہ کھائے۔ ( کرمانی )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
" And narrated Hamza bin ' Abdullah (RA): My father said. "During the lifetime of Allah's Apostle, the dogs used to urinate, and pass through the mosques (come and go), nevertheless they never used to sprinkle water on it (urine of the dog.)"