تشریح:
1۔ یہ حدیث حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک لمبی حدیث کا ٹکڑا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی تھی کہ حالت نماز میں اسے خروج ریح کا خیال گزرتا ہے تو آپ نے فرمایا: ’’وہ نماز نہ توڑے جب تک آواز نہ سنے، یا بو محسوس نہ کرے۔‘‘ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 137) مقصد یہ ہے کہ جب اسے حدث کا یقین ہو جائے تو نماز چھوڑ دے۔ آواز کا سننا یا بدبو کا پانا بنیادی شرط نہیں، کیونکہ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی سونگھنے اور سننے کی قوت ختم ہوچکی ہوتی ہے۔ وہ نہ آواز سن سکتے ہیں اور نہ بدبومحسوس کر تے ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شبہ یقین کو زائل نہیں کرسکتا اور اس قسم کے شکوک وشبہات کی کوئی حیثیت نہیں۔
2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ بول وبراز کے راستے سے جو چیز خارج ہو، وہ ناقض وضو ہے، چنانچہ اس حدیث سے وضاحت کے ساتھ اس کا ثبوت ملتا ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:(لَا يَتَوَضَّأُ مِنَ الشَّكِّ حَتَّى يَسْتَيْقِنَ) ’’شک کی بنیاد پروضو نہ کرے تاآنکہ اسے یقین ہوجائے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ شبہ کی بنیاد پر نمازتوڑنا درست نہیں، جب تک یقین نہ ہو کہ کوئی ناقض وضو حالت پیش آئی ہے۔ عمر رسیدگی میں ایسی باتیں پیش آتی رہتی ہیں، لیکن نماز کے متعلق اوہام وخیالات کو بنیاد بنا کر نماز ختم کرنا مناسب نہیں۔