تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے رسول اللہ ﷺ کے عمروں کی تعداد کے متعلق حضرت عائشہ، حضرت ابن عمر، حضرت انس اور حضرت براء بن عازب ؓ سے مروی احادیث پیش کی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں چار عمرے کیے ہیں: پہلا عمرہ چھ ہجری میں ادا کیا جبکہ مشرکین نے آپ کو بیت اللہ جانے سے روک دیا تھا، چنانچہ آپ نے اور صحابۂ کرام ؓ نے مقام حدیبیہ پر ہی احرام کھول دیا تھا۔ اسے بھی عمرہ شمار کیا جاتا ہے۔ دوسرا عمرہ سات ہجری میں ادا فرمایا اور وہ ماہ ذوالقعدہ میں تھا۔ چونکہ یہ عمرہ قریش سے صلح اور ان سے ایک فیصلے کے نتیجے میں ہوا تھا، اس لیے اسے عمرۂ قضا کہتے ہیں۔ یہ نام اس لیے نہیں رکھا گیا کہ اسے بطور قضا ادا کیا تھا جیسا کہ عامۃ الناس میں مشہور ہے۔ تیسرا عمرہ آٹھ ہجری کو ذوالقعدہ میں کیا جب مکہ مکرمہ فتح ہوا اور غزوۂ حنین سے ملنے والا مال غنیمت تقسیم کیا گیا۔ اسے عمرۂ جعرانه کہا جاتا ہے۔ چوتھا عمرہ آپ نے حجۃ الوداع کے ساتھ کیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو اشتباہ یا نسیان ہو گیا، اس لیے انہوں نے فرمایا کہ ایک عمرہ ماہ رجب میں ادا کیا، اس کے متعلق حضرت عائشہ ؓ نے تردید کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ماہ رجب میں کوئی عمرہ نہیں کیا۔ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی بات سن کر حضرت ابن عمر ؓ نے ہاں یا نہیں میں کوئی جواب نہیں دیا بلکہ خاموش ہو گئے۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3036(1253)) اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے بھی حضرت عائشہ ؓ کے موقف سے اتفاق کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ماہ رجب میں کوئی عمرہ ادا نہیں فرمایا۔ حضرت براء بن عازب ؓ کے مطابق آپ نے دو عمرے ادا کیے ہیں۔ دراصل راوی نے وہ عمرہ جو حج کے ساتھ ادا کیا تھا اور جس عمرے سے رسول اللہ ﷺ کو روک دیا گیا تھا، ان دونوں کو شمار نہیں کیا۔ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تین عمرے ماہ ذوالقعدہ میں کیے تھے اور چوتھا عمرہ حجۃ الوداع کے ساتھ ماہ ذوالحجہ میں ادا کیا تھا۔ حضرت مجاہد سے منصور کی روایت کے مطابق جب حضرت ابن عمر ؓ سے سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے چار عمرے کیے تھے جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث: (1775) میں ہے لیکن ابو اسحاق کی روایت کے مطابق حضرت ابن عمر ؓ نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے دو عمرے کیے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ نے تردید فرمائی کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے عمرے کے علاوہ تین عمرے کیے ہیں جیسا کہ سنن ابی داود میں ہے۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1992) ان روایات میں تطبیق یوں ہے: ممکن ہے کہ پہلے حضرت ابن عمر ؓ سے تعداد کے متعلق سوال ہوا ہو، پھر ان سے مہینے کے متعلق دریافت کیا گیا ہو جیسا کہ منصور کی روایت میں ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کے متنبہ کرنے پر انہوں نے فرمایا: آپ نے چار عمرے کیے ہیں لیکن کس مہینے میں کیے ہیں اس کے متعلق سہو ہو گیا ہو جیسا کہ مسند امام احمد میں ہے کہ حضرت عروہ بن زبیر نے ان سے سوال کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کس مہینے میں عمرہ کیا تھا تو انہوں نے بتایا کہ ماہ رجب میں، جس کی حضرت عائشہ ؓ نے تردید فرمائی ہے۔ (مسندأحمد:143/2) (2) واضح رہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے چاشت کی نماز کو بدعت کہا ہے، شاید انہیں معلوم نہ ہو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ام ہانی ؓ کے گھر نماز چاشت ادا کی تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے نماز چاشت مسجد کے اندر اجتماعی صورت میں ادا کرنے کو بدعت کہا ہو۔ بہرحال نماز چاشت رسول اللہ ﷺ نے خود بھی پڑھی ہے اور دوسروں کو پڑھنے کی ترغیب بھی دی ہے جیسا کہ ہم آئندہ بیان کریں گے۔ بإذن الله