قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: کِتَابُ العُمْرَةِ (بَابٌ: مَتَى يَحِلُّ المُعْتَمِرُ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ عَطَاءٌ، عَنْ جَابِرٍ ؓ، أَمَرَ النَّبِيُّ ﷺ «أَصْحَابَهُ أَنْ يَجْعَلُوهَا عُمْرَةً، وَيَطُوفُوا ثُمَّ يُقَصِّرُوا وَيَحِلُّوا»

1795. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَدِمْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَطْحَاءِ وَهُوَ مُنِيخٌ فَقَالَ أَحَجَجْتَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ بِمَا أَهْلَلْتَ قُلْتُ لَبَّيْكَ بِإِهْلَالٍ كَإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَحْسَنْتَ طُفْ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ أَحِلَّ فَطُفْتُ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ أَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ قَيْسٍ فَفَلَتْ رَأْسِي ثُمَّ أَهْلَلْتُ بِالْحَجِّ فَكُنْتُ أُفْتِي بِهِ حَتَّى كَانَ فِي خِلَافَةِ عُمَرَ فَقَالَ إِنْ أَخَذْنَا بِكِتَابِ اللَّهِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُنَا بِالتَّمَامِ وَإِنْ أَخَذْنَا بِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور عطاءبن ابی رباح نے جابر ؓ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے اپنے اصحاب کو یہ حکم دیا کہ حج کے احرام کو عمرہ سے بدل دیں اور طواف (بیت اللہ اور صفا و مروہ ) کریں پھر بال ترشوا کر احرام سے نکل جائیں۔تشریح : ابن بطال نے کہا میں تو علماءکا اختلاف اس باب میں نہیں جانتا کہ عمرہ کرنے والا اس وقت حلال ہوتا ہے جب طواف اور سعی سے فارغ ہو جائے، مگر ابن عباس ؓ سے ایک شاذ قول منقول ہے کہ صرف سعی کرنے سے حلال ہو جاتا ہے اور اسحاق بن راہویہ ( استاذ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ ) نے اسی کو اختیار کیا ہے اور امام بخاری نے یہ باب لا کر ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مذہب کی طرف اشارہ کیا اور قاضی عیاض نے بعض اہل علم سے نقل کیا ہے کہ عمرہ کرنے والا جہاں حرم میں پہنچا وہ حلال ہو گیا گو طواف اور سعی نہ کرے مگر صحیح بات وہی ہے جو باب اور حدیث سے ظاہر ہے۔

1795.

حضرت ابو موسیٰ اشعرى ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس وادی بطحاء میں اس وقت آیا جب آپ وہاں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’تم حج کی نیت سے آئے ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں! آپ نے دریافت کیا: ’’تم نے کس نیت سے احرام باندھا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ اس حرام سے لبیک کہا ہے جو نبی کریم ﷺ کا احرام ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا: ’’تو نے بہت اچھا کیا ہے۔ بیت اللہ کا طواف کرو، پھر صفا اور مروہ کے درمیا ن سعی کرکے احرام کھول دو۔‘‘ چنانچہ میں نے بیت اللہ کا طواف کیا۔ پھر صفا اور مروہ کے د رمیان سعی کی۔ پھر میں قبیلہ قیس کی ایک عورت کے پاس آیا۔ اس نے میرے سر سے جوئیں نکالیں۔ بعد ازاں میں نے حج کا احرام باندھا۔ میں لوگوں کو اسی کے مطابق فتویٰ دیاکرتا تھا حتیٰ کہ حضرت عمر   ؓ کا عہد خلافت آیا توانھوں نے کہا: اگر ہم اللہ کی کتاب کو لیں تو وہ ہمیں حج اور عمرہ پورا کرنے کا حکم دیتی ہے اور اگر ہم نبی کریم ﷺ کے ارشاد پر عمل کریں تو آپ اس وقت تک احرام سے آزاد نہیں ہوئے حتیٰ کہ قربانی اپنے مقام تک پہنچ گئی۔