تشریح:
1۔ اس باب کے دو جز ہیں: (الف)۔ بول وبراز کے راستے سے نکلنے والی ہر چیز ناقض وضو ہے۔ (ب)۔ بول وبراز کے راستے کے علاوہ نکلنے والی کوئی چیز بھی ناقض وضو نہیں۔ اس حدیث کی عنوان کے پہلے حصے سے مطابقت ہے، کیونکہ جماع کے دوران میں انزال نہ ہونے کی صورت میں مذی کا قطرہ تو خارج ہو ہی جاتا ہے اس لیے وضو ضروری ہے۔ اس سے غسل واجب ہوتا ہے یا نہیں؟ اس کے متعلق کتاب الغسل میں بحث ہوگی۔ وہاں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے موقف کے متعلق بھی گفتگو کی جائے گی، البتہ اس مقام پر یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ حدیث بالا منسوخ ہے۔
2۔ اگر اس حدیث کو منسوخ تسلیم کیا جائے تو وضو کے متعلق استدلال کیونکر صحیح ہوسکتا ہے؟ اس کا جواب حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بایں الفاظ دیا ہے کہ انزال نہ ہونے سے غسل کا واجب نہ ہونا منسوخ ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غسل کے متعلق حکم دینا اس کا ناسخ ہے، البتہ وضو کا حکم تو منسوخ نہیں ہوا بلکہ وضو کی مشروعیت تو غسل کی صورت میں بھی باقی رہتی ہے اور وضو کی وجہ سے ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ اس سے مذی کا خروج تو ہو ہی جاتا ہے، نیز عورت سے ملامست بھی وضو کا باعث ہو سکتا ہے اور حدیث کی عنوان سے مناسبت بھی اسی سے ظاہر ہوتی ہے۔ (فتح الباري: 371/1) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا عورت کی ملامست سے وضو ضروری قرار دینا محل نظر ہے، نیز یہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے موقف کے بھی خلاف ہے۔
3۔ روایت میں جس انصاری کا ذکر ہے اس سے مراد حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جیسا کہ صحیح مسلم (حدیث:343) میں اس کی وضاحت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ وہ دیر سے آیا ہے اور اس کے سر سے پانی بھی ٹپک رہا ہے تو آپ نے اندازہ لگایا کہ شاید وہ اپنی بیوی کے ساتھ مصروف تھا اور ہم نے اسے جلدی میں ڈال دیا۔ اس واقعے سے یہ استدلال کہ آپ غیب جانتے تھے، نری جہالت ہے، چنانچہ ایک شارح بخاری نے لکھا ہے: ’’اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم امور خفیہ پر مطلع ہیں۔‘‘ چنانچہ اس حدیث میں مجامعت خود امور خفیہ سے ہے، پھر انزال ہونا یا نہ ہونا بھی مخفی امرہے۔‘‘ (تفهیم البخاري: 437/1)
4۔ آخر میں ایک متابعت کا حوالہ ہے کہ شعبہ سے روایت کرنے میں نضر بن شمیل کی وہب بن جریر نے متابعت کی ہے جسے ابوالعباس السراج نے اپنی مسند میں موصولاً بیان کیا ہے، نیز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ غندر اور یحییٰ بن سعید القطان نے بھی شعبہ سے اس روایت کو بیان کیا ہے، لیکن انھوں نے لفظ وضو کا ذکر نہیں کیا۔ یحییٰ بن سعید کے متعلق تو یہ بات صحیح ہے کہ انھوں نے وضو کا لفظ ذکر نہیں کیا جیسا کہ (مسند احمد:26/3) میں اس کی صراحت ہے، لیکن غندر نے لفظ وضو ذکر کیا ہے۔ اس نے بایں الفاظ بیان کیا ہے: ’’تجھ پر غسل نہیں بلکہ صرف وضو واجب ہے۔‘‘ جیساکہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی روایت کو ذکر کیا ہے۔ (صحیح المسلم، الحیض، حدیث: 345)
5۔ حدیث میں لفظ ’’اَو‘‘ تنویع کے لیے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ تقسیم فرمائی ہے کہ عدم انزال اس شخص کی ذات کے باعث ہو یا کسی خارجی امر کے سبب، دونوں صورتوں میں حکم ایک ہی ہے کہ اس کے ذمے صرف وضو کرنا ہے۔ غسل کرنا ضروری نہیں۔ (شرح الکرماني: 20/2) لیکن یہ حکم اب منسوخ ہوچکا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جب آدمی بیوی کے ساتھ جماع کرنے کی کوشش کرے اور مرد و زن کے ختان آپس میں مل جائیں تو غسل واجب ہے، انزال ہو یا نہ ہو۔‘‘ (صحیح البخاري، الغسل، حدیث:291)