قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الوُضُوءِ (بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ الوُضُوءَ إِلَّا مِنَ المَخْرَجَيْنِ: مِنَ القُبُلِ وَالدُّبُرِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: {أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الغَائِطِ} [النساء: 43] وَقَالَ عَطَاءٌ: - فِيمَنْ يَخْرُجُ مِنْ دُبُرِهِ الدُّودُ، أَوْ مِنْ ذَكَرِهِ نَحْوُ القَمْلَةِ - «يُعِيدُ الوُضُوءَ» وَقَالَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: «إِذَا ضَحِكَ فِي الصَّلاَةِ أَعَادَ الصَّلاَةَ وَلَمْ يُعِدِ الوُضُوءَ» وَقَالَ الحَسَنُ: «إِنْ أَخَذَ مِنْ شَعَرِهِ وَأَظْفَارِهِ، أَوْ خَلَعَ خُفَّيْهِ فَلاَ وُضُوءَ عَلَيْهِ» وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: «لاَ وُضُوءَ إِلَّا مِنْ حَدَثٍ» وَيُذْكَرُ عَنْ جَابِرٍ: «أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ فِي غَزْوَةِ ذَاتِ الرِّقَاعِ فَرُمِيَ رَجُلٌ بِسَهْمٍ، فَنَزَفَهُ الدَّمُ، فَرَكَعَ، وَسَجَدَ وَمَضَى فِي صَلاَتِهِ» وَقَالَ الحَسَنُ: «مَا زَالَ المُسْلِمُونَ يُصَلُّونَ فِي جِرَاحَاتِهِمْ» وَقَالَ طَاوُسٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، وَعَطَاءٌ، وَأَهْلُ الحِجَازِ لَيْسَ فِي الدَّمِ وُضُوءٌ وَعَصَرَ ابْنُ عُمَرَ بَثْرَةً فَخَرَجَ مِنْهَا الدَّمُ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ وَبَزَقَ ابْنُ أَبِي أَوْفَى دَمًا فَمَضَى فِي صَلاَتِهِ وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ، وَالحَسَنُ: فِيمَنْ يَحْتَجِمُ: لَيْسَ عَلَيْهِ إِلَّا غَسْلُ مَحَاجِمِهِ

180. حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الحَكَمِ، عَنْ ذَكْوَانَ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَ إِلَى رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ فَجَاءَ وَرَأْسُهُ يَقْطُرُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَعَلَّنَا أَعْجَلْنَاكَ»، فَقَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أُعْجِلْتَ أَوْ قُحِطْتَ فَعَلَيْكَ الوُضُوءُ» تَابَعَهُ وَهْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: وَلَمْ يَقُلْ غُنْدَرٌ، وَيَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ الوُضُوءُ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ “ جب تم میں سے کوئی قضاء حاجت سے فارغ ہو کر آئے تو تم پانی نہ پاؤ تو تیمم کر لو۔ ” عطاء کہتے ہیں کہ جس شخص کے پچھلے حصہ سے ( یعنی دبر سے ) یا اگلے حصہ سے ( یعنی ذکر یا فرج سے ) کوئی کیڑا یا جوں کی قسم کا کوئی جانور نکلے اسے چاہیے کہ وضو لوٹائے اور جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ جب ( آدمی ) نماز میں ہنس پڑے تو نماز لوٹائے اور وضو نہ لوٹائے اور حسن ( بصری ) نے کہا کہ جس شخص نے ( وضو کے بعد ) اپنے بال اتروائے یا ناخن کٹوائے یا موزے اتار ڈالے اس پر وضو نہیں ہے۔ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ وضو حدث کے سوا کسی اور چیز سے فرض نہیں ہے اور حضرت جابر سے نقل کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ذات الرقاع کی لڑائی میں ( تشریف فرما ) تھے۔ ایک شخص کے تیر مارا گیا اور اس ( کے جسم ) سے بہت خون بہا مگر اس نے پھر بھی رکوع اور سجدہ کیا اور نماز پوری کر لی اور حسن بصری نے کہا کہ مسلمان ہمیشہ اپنے زخموں کے باوجود نماز پڑھا کرتے تھے اور طاؤس، محمد بن علی اور اہل حجاز کے نزدیک خون ( نکلنے ) سے وضو ( واجب ) نہیں ہوتا۔ عبداللہ بن عمر ؓ نے ( اپنی ) ایک پھنسی کو دبا دیا تو اس سے خون نکلا۔ مگر آپ نے ( دوبارہ ) وضو نہیں کیا اور ابن ابی اوفیٰ نے خون تھوکا۔ مگر وہ اپنی نماز پڑھتے رہے اور ابن عمر اور حسن ؓ پچھنے لگوانے والے کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ جس جگہ پچھنے لگے ہوں اس کو دھولے، دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں۔

180.

حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ایک انصاری آدمی کو بلایا، وہ اس حالت میں حاضر ہوا کہ اس کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’شاید ہم نے تجھے جلدی میں ڈال دیا ہے۔‘‘ اس نے کہا: جی ہاں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تجھے جلدی میں مبتلا کر دیا جائے یا انزال کو روک دیا جائے تو تجھ پر صرف وضو کر لینا ضروری ہے۔‘‘ نضر کی وہب نے متابعت کی اور کہا کہ یہ حدیث ہم سے شعبہ نے بیان کی، نیز غندر اور یحییٰ نے شعبہ سے ’’وضو‘‘ نقل نہیں کیا۔