تشریح:
(1) ہر وہ حرکت یا کلام جو انسان کو شہوت پر اُکسائے رفث کہلاتا ہے۔ اس سے مراد جماع وغیرہ ہے۔ (2) سنن ترمذی کی روایت میں ہے: ’’اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘ (جامع الترمذي، الحج، حدیث:811) صحیح مسلم میں ہے: ’’جو اس گھر کو آتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3291(1350)) ان الفاظ میں عموم پایا جاتا ہے جو حج اور عمرہ دونوں کو شامل ہے۔ اگر حج کے لغوی معنی مراد لیے جائیں تو اس سے عموم مراد لیا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري:27/4) واضح رہے کہ بعض لوگوں کی عبادات کفارے کا سبب بنتی ہیں جبکہ بعض حضرات کی عبادات کفارہ نہیں ہوتیں کیونکہ بہت سے نیند کرنے والے ایسے ہوتے ہیں جن کا اللہ کے ہاں اعلیٰ مقام ہوتا ہے جبکہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کہ آدھی رات سے عبادت کرنا ان کے لیے بےکار ہوتا ہے، انہیں بیداری کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ (3) اس حدیث میں جھگڑے وغیرہ کا ذکر نہیں ہے جبکہ عنوان میں اس کا ذکر موجود ہے۔ امام بخاری ؒ نے فسق کی مذمت کے لیے حدیث ذکر فرمائی اور جدال، یعنی لڑائی جھگڑے کی مذمت کے لیے صرف آیت کریمہ پر اکتفا کیا، یعنی آیت اور حدیث دونوں کو ملا کر عنوان کو ثابت کیا ہے۔ اس انداز سے امام بخاری کی دقت نظر اور فقاہت و فراست ثابت ہوتی ہے۔