قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: کِتَابُ جَزَاءِ الصَّيْدِ (بَابُ وَإِذَا صَادَ الحَلاَلُ، فَأَهْدَى لِلْمُحْرِمِ الصَّيْدَ أَكَلَهُ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَلَمْ يَرَ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَأَنَسٌ، بِالذَّبْحِ بَأْسًا وَهُوَ غَيْرُ الصَّيْدِ، نَحْوُ الإِبِلِ وَالغَنَمِ وَالبَقَرِ وَالدَّجَاجِ وَالخَيْلِ، يُقَالُ: عَدْلُ ذَلِكَ مِثْلُ، فَإِذَا كُسِرَتْ عِدْلٌ فَهُوَ زِنَةُ ذَلِكَ {قِيَامًا} [آل عمران: 191]، قِوَامًا، {يَعْدِلُونَ} [الأنعام: 1] يَجْعَلُونَ عَدْلًا

1821. حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ يَحْيَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ انْطَلَقَ أَبِي عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ فَأَحْرَمَ أَصْحَابُهُ وَلَمْ يُحْرِمْ وَحُدِّثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ عَدُوًّا يَغْزُوهُ فَانْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَيْنَمَا أَنَا مَعَ أَصْحَابِهِ تَضَحَّكَ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ فَنَظَرْتُ فَإِذَا أَنَا بِحِمَارِ وَحْشٍ فَحَمَلْتُ عَلَيْهِ فَطَعَنْتُهُ فَأَثْبَتُّهُ وَاسْتَعَنْتُ بِهِمْ فَأَبَوْا أَنْ يُعِينُونِي فَأَكَلْنَا مِنْ لَحْمِهِ وَخَشِينَا أَنْ نُقْتَطَعَ فَطَلَبْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْفَعُ فَرَسِي شَأْوًا وَأَسِيرُ شَأْوًا فَلَقِيتُ رَجُلًا مِنْ بَنِي غِفَارٍ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ قُلْتُ أَيْنَ تَرَكْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ تَرَكْتُهُ بِتَعْهَنَ وَهُوَ قَائِلٌ السُّقْيَا فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَهْلَكَ يَقْرَءُونَ عَلَيْكَ السَّلَامَ وَرَحْمَةَ اللَّهِ إِنَّهُمْ قَدْ خَشُوا أَنْ يُقْتَطَعُوا دُونَكَ فَانْتَظِرْهُمْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَصَبْتُ حِمَارَ وَحْشٍ وَعِنْدِي مِنْهُ فَاضِلَةٌ فَقَالَ لِلْقَوْمِ كُلُوا وَهُمْ مُحْرِمُونَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور انس اور ابن عباس ؓ (محرم کے لیے ) شکار کے سوا دوسرے جانور مثلاً اونٹ، بکری، گائے، مرغی اور گھوڑے کے ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ قرآن میں لفظ عدل (بفتح غین ) مثل کے معنی میں بولا گیا ہے اور عدل (عین کو ) جب زیر کے ساتھ پڑھا جائے تو وزن کے معنی میں ہوگا، قیاماً قواماً (کے معنی میں ہے، قیم ) یعدلون کے معنی میں مثل بنانے کے۔

1821.

حضرت عبد اللہ بن ابو قتادہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میرے والد محترم (ابو قتادہ  ؓ )حدیبیہ کے سال روانہ ہوئے۔ ان کے ساتھیوں نے احرام باندھا لیکن انھوں نے نہیں باندھا تھا۔ نبی ﷺ کو بتایا گیا کہ مقام غیقہ میں دشمن آپ سے جنگ کرنا چاہتا ہے لیکن نبی ﷺ نے اپنے سفر کو جاری رکھا۔ میرے والد اپنے ساتھیوں کے ساتھ سفر کر رہے تھے کہ اچانک وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے۔ (میرے والد نے بیان کیا کہ میں متوجہ ہوا) تو میں نے دیکھا کہ ایک جنگلی گدھا سامنے ہے۔ میں نے اس پر حملہ کردیا اور اسے زخمی کر کے ٹھہرنے پر مجبورکردیا۔ میں نے اس سلسلے میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے تعاون چاہا لیکن انھوں نے میری مدد کرنے سے انکار کردیا۔ بہر حال ہم نے اس کا کچھ گوشت کھایا۔ اسی اثنا میں ہمیں خطرہ لاحق ہواکہ مبادا ہم(رسول اللہ ﷺ سے)پیچھے رہ جائیں، چنانچہ میں نے نبی ﷺ کو تلاش کرنا شروع کیا۔ میں اپنے گھوڑے کو کبھی دوڑاتا اور کبھی آہستہ چلاتا رہا۔ میں آدھی رات کے قریب قبیلہ غفار کے ایک شخص سے ملا، میں نے اس سے دریافت کیا کہ نبی ﷺ کو تونے کہاں چھوڑا ہے؟اس نے کہا: میں نے آپ ﷺ کو مقام تعہن میں چھوڑا ہے، آپ سقیا مقام پر قیلولہ کرنا چاہتے تھے میں نے(آپ کے پاس پہنچ کر)عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ کو سلام کہتے ہیں اور آپ کے لیے رحمت الٰہی کی دعا کرتے ہیں!انھیں اندیشہ ہے کہ کہیں وہ آپ سے پیچھے نہ رہ جائیں لہذا آپ ان کا انتظار فرمائیں۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! میں نے ایک گاؤ خر کا شکار کیا ہے اور میرے پاس کچھ بچاہوا گوشت موجود ہے۔ آپ نے قوم سے فرمایا: ’’اسے کھاؤ۔ ‘‘ حالانکہ وہ سب احرام باندھے ہوئے تھے۔