تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ کا اسے موذی قرار دینا اس بات کی علامت ہے کہ اسے قتل کرنا جائز ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کا اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے نہ سننا حکم امتناعی کی دلیل نہیں بن سکتا جبکہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے چھپکلی کو مارنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ خود امام بخاری ؒ نے اس روایت کو بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، بدءالخلق، حدیث:3306) حضرت ام شریک ؓ نے بھی رسول اللہ ﷺ سے اس کے مارنے کا حکم بیان کیا ہے اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ چھپکلی نے حضرت ابراہیم ؑ کی آگ کو تیز کرنے کے لیے پھونکیں ماری تھیں۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث:3359) بلکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے مارنے پر نوید ثواب سنائی ہے۔ ارشاد نبوی ہے: ’’جو چھپکلی کو پہلی ضرب میں قتل کرے گا اسے سو نیکیاں ملیں گی‘‘ (صحیح مسلم، السلام، حدیث:5847(2240)) (2) ابن عبد البر ؒ نے اجماع نقل کیا ہے کہ حل و حرم میں چھپکلی کو مارنا جائز ہے لیکن حضرت عطاء بن ابی رباح سے حرم میں چھپکلی مارنے کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا: اگر تجھے اذیت پہنچائے تو اس کے قتل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کے مارنے کو اس کی ضرر رسانی پر موقوف خیال کرتے ہیں۔ (فتح الباري:54/4) (3) حدیث کے آخر میں مذکور امام بخاری ؒ کے ارشاد کا تعلق سابقہ حدیث: (1830) سے ہے۔ چونکہ اکثر نسخوں میں اس کا ذکر ہے، اس لیے اسے یہیں رہنے دیا گیا ہے۔