تشریح:
(1) مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو شریح ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے ارشادات کے وقت میں وہاں موجود تھا اور تم اس وقت موجود نہیں تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یہ پیغام آگے پہنچانے کا حکم دیا جو میں نے تجھے پہنچا دیا۔ (مسندأحمد:32/4) اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابو شریح ؓ نے عمرو بن سعید کے اقدام کی موافقت نہیں کی بلکہ بآواز بلند اسے روکنے کی کوشش کی لیکن عمرو بن سعید نے چالاکی سے کام لیتے ہوئے ایک صحیح بات کو غلط مقصد کے لیے استعمال کیا کیونکہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کسی صورت میں نافرمان، تخریب کار یا خون خرابا کر کے بھاگنے والے نہیں تھے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حرم کے درختوں کو کاٹنا نہیں چاہیے، لیکن اس سے مراد وہ درخت ہیں جو خود بخود وہاں اُگے ہوں۔ اس میں تمام علماء کا اتفاق ہے، البتہ شاخوں سے مسواک وغیرہ بنانا بعض علماء نے جائز قرار دیا ہے۔ اسی طرح حرم کا درخت خود بخود گر گیا ہو تو اس سے فائدہ اٹھانا بھی جائز ہے، نیز پھل دار درخت سے پھل اتارنا جبکہ اس سے درخت کا نقصان نہ ہو یہ بھی جائز ہے۔ اگر حرم میں لوگ درخت اُگائیں یا باغ وغیرہ کاشت کریں تو ان کے استعمال میں بھی کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:58/4)