تشریح:
(1) عہد رسالت میں مکہ فتح ہوتے ہی ہجرت کا سلسلہ ختم ہو گیا کیونکہ اب مکہ دارالاسلام بن گیا اور مسلمانوں کو آزادی سے رہنے کی اجازت مل گئی، لیکن یہ حکم قیامت تک کے لیے باقی ہے کہ کسی بھی وقت کہیں سے بھی بوقت ضرورت مسلمان دارالاسلام کی طرف ہجرت کر سکتے ہیں، اس لیے اپنے دین کو محفوظ رکھنے کے لیے حسن نیت رکھنا ہر جگہ اور ہر وقت باقی ہے۔ اس کے ساتھ سلسلۂ جہاد بھی قیامت تک جاری رہے گا۔ جب بھی کسی جگہ کفر اور اسلام کی معرکہ آرائی ہو اور اسلامی سربراہ جہاد کے لیے اعلان کر دے تو ہر مسلمان پر اس کے اعلان پر لبیک کہنا ضروری ہے۔ جب مکہ مکرمہ فتح ہوا تو تھوڑی دیر کے لیے مدافعانہ جنگ کی اجازت ملی جو وہاں استحکام امن کے لیے ضروری تھی، اس کے بعد اس اجازت کو ختم کر دیا گیا۔ اب مکہ مکرمہ میں جنگ و قتال اور خونریزی کرنا ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔ مکہ مکرمہ دارالامن ہے۔ اس کی یہ حیثیت قیامت تک باقی رہے گی۔ (2) واضح رہے کہ مکہ مکرمہ میں اذخر کے علاوہ ہر قسم کی گھاس کاٹنا ناجائز ہے، خواہ وہ تازہ ہو یا خشک کیونکہ خشک گھاس کاٹنے کی ممانعت کے متعلق بھی ایک روایت آئی ہے، البتہ حدود حرم میں ترکاریاں، سبزیاں اور کھیتیاں جو لوگ خود کاشت کرتے ہیں ان کا کاٹنا جائز ہے۔ (فتح الباري:64/4) بہرحال اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کی حرمت کو زمین و آسمان کی پیدائش کے دن سے برقرار رکھا ہے اور قیامت تک قائم رہے گی۔