کتاب: محرم کے روکے جانے اور شکار کا بدلہ دینے کے بیان میں
(
باب : فدیہ میں ہر فقیر کو آدھا صاع غلہ دینا۔
)
Sahi-Bukhari:
Pilgrims Prevented from Completing the Pilgrimage
(Chapter: The Fidya for a missed or wrongly practised religious ceremony)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1834.
حضرت عبد اللہ بن معقل سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں حضرت کعب بن عجرہ ؓ کے پاس بیٹھا اور ان سے فدیے کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: مذکورہ (فدیے والی)آیت کریمہ میرے حق میں خاص طور پر نازل ہوئی، البتہ اس کا حکم تمھارے لیے عام ہے۔ مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس اس حالت میں لایا گیا کہ جو ئیں میرے چہرے پر گر رہی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے یقین نہیں تھا کہ تمھاری تکلیف اس حد تک پہنچ گئی ہوگی۔ کیا تجھے بکری مل جائے گی؟‘‘ میں نے عرض کیا: نہیں!آپ نے فرمایا: ’’تین دن کے روزے رکھویا چھ مساکین کو کھانا کھلاؤ، ہر مساکین کو نصف صاع دو۔‘‘
تشریح:
(1) بعض حضرات نے گندم اور کھجور کا فرق کیا ہے کہ گندم کا نصف صاع اور کھجوروں کا ایک صاع ہر مسکین کو دیا جائے لیکن مذکورہ حدیث اس موقف کی تردید کرتی ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے ان حضرات کی تردید کرنا مقصود ہے جو اس کے متعلق گندم وغیرہ میں فرق کرتے ہیں۔ (فتح الباري:22/4) (2) فدیے کی مذکورہ کیفیت میسر ہونے کی صورت میں ہے، بصورت دیگر تنگ دستی کی صورت میں توبہ و استغفار ہی اس کے لیے کفارہ ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی ہمت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، البتہ صاحب حیثیت کے لیے شرعی حکم بجا لانا ضروری ہے، ورنہ حج میں نقص رہ جائے گا۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سنت (حدیث) قرآن کے اجمال کی تفصیل بیان کرتی ہے کیونکہ قرآن کریم میں مطلق فدیے کا ذکر تھا سنت، یعنی حدیث نے اسے مقید کیا ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1764
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1816
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1816
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1816
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اگر تمہیں حج یا عمرے سے روک دیا جائے تو جو بھی بدی میسر ہو (کرو)اور اپنے سر نہ منڈاؤتا آنکہ بدی (قربانی) اپنی جگہ پہنچ جائے ۔‘‘
حضرت عطا بن ابی رباح نے کہا کہ احصار ہر چیز اس چیز سے ہے جو اسے روک دے۔ ابو عبداللہ امام بخاری نے فرمایا قرآن کریم میں حصورًا کے معنی ہیں وہ آدمی جو عورتوں کے پاس نہ آئے۔
لفظ مُحصر اسم مفعول کا صیغہ ہے جس کا مصدر احصار ہے جو لغت میں رکاوٹ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ شرعی اصطلاح میں محصر وہ شخص ہے جو حج یا عمرے کو جاتے ہوئے راستے ہی میں کسی بیماری یا طوفان و سیلاب یا دشمن یا کسی بھی وجہ سے روک دیا جائے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک احصار صرف دشمن کے ذریعے سے رکاوٹ پڑنے کی صورت ہی میں ہو سکتا ہے، لیکن یہ موقف مرجوح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو مقام حدیبیہ پر بیت اللہ جانے سے روک دیا گیا تھا جبکہ آپ عمرے کی نیت سے آئے تھے، اس وقت احصار کے احکام نازل ہوئے جن کی آئندہ وضاحت کی جائے گی۔ بعض دفعہ دورانِ سفر حج میں موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ ایسے حاجی صاحبان قیامت کے دن لبیک کہتے ہوئے کھڑے ہوں گے اور انہیں اللہ کے ہاں حاجیوں کے گروہ میں شامل کیا جائے گا۔ احصار کی صورت میں اسی جگہ پر احرام کھول دیا جائے اور اپنا سر منڈوا کر قربانی کر دی جائے۔ ایسے لوگوں کو آئندہ سال حج یا عمرہ کرنا ہو گا جیسا کہ حدیث میں ہے: "جس شخص کا پاؤں توڑ دیا جائے یا وہ لنگڑا ہو جائے تو وہ احرام سے باہر آ جائے گا، تاہم اسے آئندہ سال حج کرنا ہو گا۔" (سنن ابی داؤد،المناسک،حدیث:1862)اگر کسی کو رکاوٹ پیش آنے کا اندیشہ ہو تو وہ مشروط احرام بھی باندھ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر کوئی رکاوٹ پیش آ جائے تو محصر کی طرح اس پر قربانی وغیرہ واجب نہیں ہو گی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ حضرت ضباعہ بنت زبیر رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے، اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں حج کا ارادہ رکھتی ہوں مگر میں بیمار ہوں؟ آپ نے فرمایا: "مشروط طور پر حج کا احرام باندھ لو کہ میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہو گی جہاں اے اللہ! تو نے مجھے روک دیا۔" (صحیح البخاری،النکاح،حدیث:5089)امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل احصار سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں انہوں نے تقریبا سولہ مرفوع احادیث پیش کی ہیں اور تین معلق آثار کا بھی حوالہ دیا ہے، پھر ان احادیث و آثار پر دس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان عناوین کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ جب عمرہ کرنے کے لیے کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے٭ حج میں رکاوٹ کا پیدا کرنا٭ رکاوٹ پڑ جانے کی صورت میں سر منڈوانے سے پہلے قربانی کرنا٭ محصر پر بدل ہے یا نہیں؟٭ إحصار کے متعلق آیت کریمہ کی تفسیر٭ صدقه سے مراد چھ مساکین کو کھانا کھلانا ہے٭ کفارہ ادا کرنے کی صورت میں نصف صاع گندم دینی ہو گی٭ نسك سے مراد ایک بکری ہے٭ فَلَا رَفَثَ کا کیا مطلب ہے؟٭ ارشاد باری تعالیٰ: "دوران حج میں گناہ یا کسی سے جھگڑا نہ کرے۔" کی تشریح:اس کے علاوہ کئی ایک اسنادی مباحث ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ دوران مطالعہ ہماری پیش کردہ گزارشات کو ضرور مدنظر رکھیں تاکہ انہیں امام بخاری رحمہ اللہ کے اسرارورموز سمجھنے میں آسانی رہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل احصار کی بنیاد مذکورہ آیت کریمہ کو قرار دیا ہے، چنانچہ حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے زمانے میں نکلے۔ بدیل بن ورقاء خزاعی آیا اور کہنے لگا: قریش آپ سے لڑیں گے اور آپ کو بیت اللہ جانے سے روکیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہم لڑنے نہیں آئے۔ ہمارا مقصد صرف عمرہ کرنا ہے۔" اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: "اٹھو! قربانی کرو اور اپنے سر منڈوا دو۔" آپ نے اپنی قربانی ذبح کی، پھر حجام کو بلایا اس نے آپ کا سر مونڈا۔ (صحیح البخاری،الشروط،حدیث:2731) مذکورہ بالا آیت کریمہ اسی تناظر میں نازل ہوئی۔ احصار کے لیے کوئی چیز بھی سبب بن سکتی ہے، ضروری نہیں کہ دشمن ہی کا اندیشہ ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے رجحان کے پیش نظر حضرت عطاء کا قول پیش کیا ہے جسے عبد بن حمید نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اگر کسی کو سانپ یا بچھو ڈس جائے اور وہ چلنے سے معذور ہو جائے تو وہ بھی محصر ہے لیکن اہل کوفہ نے کہا ہے کہ احصار صرف ہڈی ٹوٹنے، دشمن کا خوف اور بیماری وغیرہ کی وجہ سے ہو گا، جبکہ بعض حضرات صرف دشمن کے خطرے کو احصار کا باعث قرار دیتے ہیں۔ بہرحال ہمارے نزدیک احصار عام ہے۔ جو چیز بھی بیت اللہ جانے سے رکاوٹ بن جائے وہ احصار کا سبب ہو سکتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اشتقاق کی مناسبت سے حصورا کے معنی اپنے نفس کو روکنا بتائے ہیں۔ یہ لفظ سورۂ آل عمران 39:3 میں ہے۔ اس لفظ کے معنی اور شرعی احصار میں "منع" کے معنی قدر مشترک ہے۔ (فتح الباری:4/6)
حضرت عبد اللہ بن معقل سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں حضرت کعب بن عجرہ ؓ کے پاس بیٹھا اور ان سے فدیے کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: مذکورہ (فدیے والی)آیت کریمہ میرے حق میں خاص طور پر نازل ہوئی، البتہ اس کا حکم تمھارے لیے عام ہے۔ مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس اس حالت میں لایا گیا کہ جو ئیں میرے چہرے پر گر رہی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے یقین نہیں تھا کہ تمھاری تکلیف اس حد تک پہنچ گئی ہوگی۔ کیا تجھے بکری مل جائے گی؟‘‘ میں نے عرض کیا: نہیں!آپ نے فرمایا: ’’تین دن کے روزے رکھویا چھ مساکین کو کھانا کھلاؤ، ہر مساکین کو نصف صاع دو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) بعض حضرات نے گندم اور کھجور کا فرق کیا ہے کہ گندم کا نصف صاع اور کھجوروں کا ایک صاع ہر مسکین کو دیا جائے لیکن مذکورہ حدیث اس موقف کی تردید کرتی ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے ان حضرات کی تردید کرنا مقصود ہے جو اس کے متعلق گندم وغیرہ میں فرق کرتے ہیں۔ (فتح الباري:22/4) (2) فدیے کی مذکورہ کیفیت میسر ہونے کی صورت میں ہے، بصورت دیگر تنگ دستی کی صورت میں توبہ و استغفار ہی اس کے لیے کفارہ ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی ہمت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، البتہ صاحب حیثیت کے لیے شرعی حکم بجا لانا ضروری ہے، ورنہ حج میں نقص رہ جائے گا۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سنت (حدیث) قرآن کے اجمال کی تفصیل بیان کرتی ہے کیونکہ قرآن کریم میں مطلق فدیے کا ذکر تھا سنت، یعنی حدیث نے اسے مقید کیا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن اصبہانی نے، ان سے عبداللہ بن معقل نے بیان کیا کہ میں کعب بن عجرہ ؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، میں نے ان سے فدیہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ (قرآن شریف کی آیت ) اگرچہ خاص میرے بارے میں نازل ہوئی تھی لیکن اس کا حکم تم سب کے لیے ہے۔ ہوا یہ کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لایا گیا تو جوئیں سر سے میرے چہرے پر گر رہی تھیں۔ آپ ﷺ نے (یہ دیکھ کر فرمایا ) میں نہیں سمجھتا تھا کہ تمہیں اتنی زیادہ تکلیف ہوگی یا (آپ نے یوں فرمایا کہ ) میں نہیں سمجھتا تھا کہ جہد (مشقت ) تمہیں اس حد تک ہوگی، کیا تجھ کو ایک بکری کا مقدور ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تین دن کے روزے رکھ یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا، ہر مسکین کو آدھا صاع کھلائیو۔
حدیث حاشیہ:
یہ بھی اسی صورت میں کہ میسر ہو ورنہ آیت کریمہ ﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾(البقرة : 286) کے تحت پھر تو توبہ استغفار بھی کفارہ ہو جائے گا، ہاں مقدور کی حالت میں ضرور ضرور حکم شرعی بجالانا ضروری ہوگا، ورنہ حج میں نقص رہنا یقینی ہے۔ حافظ فرماتے ہیں أَيْ لِكُلِّ مِسْكِينٍ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُشِيرُ بِذَلِكَ إِلَى الرَّدِّ عَلَى مَنْ فَرَّقَ فِي ذَلِك بَين الْقَمْح وَغَيره قَالَ بن عَبْدِ الْبَرِّ قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ وَالْكُوفِيُّونَ نِصْفُ صَاعٍ مِنْ قَمْحٍ وَصَاعٌ مِنْ تَمْرٍ وَغَيْرِهِ وَعَنْ أَحْمَدَ رِوَايَةٌ تُضَاهِي قَوْلَهُمْ قَالَ عِيَاضٌ وَهَذَا الْحَدِيثُ يَرُدُّ عَلَيْهِمْ(فتح الباري)وَفِي حَدِيثِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ مِنَ الْفَوَائِدِ غَيْرُ مَا تَقَدَّمَ أَنَّ السُّنَّةَ مُبَيِّنَةٌ لِمُجْمَلِ الْكِتَابِ لِإِطْلَاقِ الْفِدْيَةِ فِي الْقُرْآنِ وَتَقْيِيدِهَا بِالسُّنَّةِ وَتَحْرِيمِ حَلْقِ الرَّأْسِ عَلَى الْمُحْرِمِ وَالرُّخْصَةِ لَهُ فِي حَلْقِهَا إِذَا آذَاهُ الْقَمْلُ أَوْ غَيْرُهُ مِنَ الْأَوْجَاعِ وَفِيهِ تَلَطُّفُ الْكَبِيرِ بِأَصْحَابِهِ وَعِنَايَتُهُ بِأَحْوَالِهِمْ وَتَفَقُّدُهُ لَهُمْ وَإِذَا رَأَى بِبَعْضِ أَتْبَاعِهِ ضَرَرًا سَأَلَ عَنْهُ وَأَرْشَدَهُ إِلَى الْمَخْرَجِ مِنْهُ یعنی ہر مسکین کے لیے ہر ایک چیز سے، اس میں اس شخص کے اوپر رد کرنا مقصو دہے جس نے اس بارے میں گندم وغیرہ کا فرق کیا ہے۔ ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ ؒ اور اہل کوفہ کہتے ہیں کہ گندم کا نصف صاع اور کھجور وں کا ایک صاع ہونا چاہئے۔ امام احمد کا قول بھی تقریباً اسی کے مشابہ ہے۔ قاضی عیاض نے فرمایا کہ حدیث کعب بن عجرہ ان کی تردید کر رہی ہے، اور اس حدیث کے فوائد میں سے یہ بھی ہے کہ قرآن کے کسی اجمالی حکم کی تفصیل سنت رسول بیان کرتی ہے۔ قرآن مجید میں مطلق فدیہ کا ذکر تھا تو سنت نے اسے مقید کر دیا اور اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ محرم کے لیے سر منڈانا حرام ہے اور جب اسے جوؤں وغیرہ کی تکلیف ہو تو وہ منڈا سکتا ہے اور اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ بڑے لوگوں کو ہمیشہ اپنے ساتھیوں پر نظر عنایت رکھتے ہوئے ان کے دکھ تکلیف کا خیال رکھنا چاہئے کسی کو کچھ بیماری وغیرہ ہو جائے تو اس کے علاج کے لیے ان کو نیک مشورہ دینا چاہئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Ma'qal: I sat with Ka'b bin 'Ujra and asked him about the Fidya. He replied, "This revelation was revealed concerning my case especially, but it is also for you in general. I was carried to Allah's Apostle (ﷺ) and the lice were falling in great number on my face. The Prophet (ﷺ) said, "I have never thought that your ailment (or struggle) has reached to such an extent as I see. Can you afford a sheep?" I replied in the negative. He then said, "Fast for three days, or feed six poor persons each with half a Sa of food." (1 Sa = 3 Kilograms approx.)