تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نواقضِ وضو میں غشی کا شمار کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ مثقل کی قید لگا کر ان لوگوں کا رد کر رہے ہیں جو اسے مطلقاً ناقض کہتے ہیں، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مطلق طور پر غشی ناقض نہیں، صرف وہ غشی ناقض ہے جو انسان کو اس حد تک بوجھل کردے کہ اس کے حواس معطل ہو جائیں، استدلال کی بنیاد حضرت اسماء ؓ کا عمل ہے کہ ان پر بحالت نماز غشی کا اثر ہوا لیکن حواس بحال ہیں، وہ اس حالت میں پانی سر پر ڈالتی رہیں تاکہ بے حواسی ختم ہو جائے۔ اسی حالت میں نماز پڑھتی رہیں۔ آپ کا یہ عمل رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جماعت میں ہوا، اس لیے آپ کی تقریری حدیث کی روسے حجت ہو گیا، اس سے معلوم ہوا کہ اس قسم کی غشی سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ واضح رہے کہ حدیث کے مطابق حضرت اسماء ؓ پر غشی کے اثرات ظاہر ہوئے، لیکن اصلاحی صاحب فرماتے ہیں: ’’واقعہ یہ ہے کہ اس روایت کے مطابق حضرت اسماء ؓ کو غشی طاری ہونے کا اندیشہ ہوا غشی طاری نہیں ہوئی۔‘‘ (تدبر حدیث: 285/1) ع، سخن فہمی عالم بالا معلوم شدہ، واقعہ یہ ہے کہ ان حضرات کا مقصد احادیث میں تشکیک پیدا کرنا ہے خواہ کسی طریقے سے ہو۔
2۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اِغماء جنون اور غشی مثقل نواقضِ وضو سے ہیں، اس پر تمام آئمہ کا اتفاق ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی اس مسئلے میں جمہور کے ساتھ ہیں، البتہ ابن حزم کو اس موقف سے اختلاف ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ اس میں اجماع کا دعوی سراسر باطل ہے۔ صرف تین اشخاص نے اس کے متعلق اظہار خیال کیا ہے، ابراہیم نخعی اور حماد تو غشی کے بعد وضو کے قائل ہیں اور حسن بصری اس کے بعد غسل کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ اب اجماع کہاں ہے؟ نیند اغماء اور جنون و بے ہوشی کے مشابہ نہیں، اس لیے نیند پر قیاس کرنا بھی صحیح نہیں۔ پھر سب لوگوں کا اتفاق ہے کہ غشی اور اِغماء کی وجہ سے احرام و صیام اور اس کے دیگر معاملات صحیح رہتے ہیں ان میں کوئی بھی باطل نہیں ہوتا وضو کا بطلان بغیر کسی نص صریح کے کیسے ہو جائے گا۔ البتہ اس کے خلاف رسول اللہ ﷺ کا یہ عمل ثابت ہوا ہے کہ مرض وفات میں آپ نے نماز کے لیے نکلنے کا ارادہ فرمایا تو اِغماء کی صورت طاری ہوگئی پھر جب افاقہ ہوا تو آپ نے غسل فرمایا، اس میں حدیث مذکور کی راویہ حضرت عائشہ ؓ نے وضو کا کوئی ذکر نہیں کیا اور غسل بھی اس لیے تھا کہ ایسا کرنے سے قوت بحال ہو جائے گی۔ (محلی ابن حزم :222/1) اس سے معلوم ہوا کہ ابن حزم کے نزدیک غشی و اِغماء سے وضو نہیں ٹوٹتا خواہ وہ کیسی ہی ہو، کیونکہ اس کے لیے کوئی نص صریح نہیں، حالانکہ حدیث عائشہ میں غشی خفیف ہی کی ایک صورت کا ذکر ہے جس سے زوال عقل وحواس نہیں ہوا۔ ممکن ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان حضرات کی تردید ہی کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہو
3۔ اس حدیث سے بعض حضرات نے رسول الله ﷺ کے حاضر و ناظر ہونے پر بھی استدلال کیا ہے کیونکہ اس میں آپ کے لیے ’’ھذا الرجل‘‘ استعمال ہوا ہے حالانکہ اس سے مقصود استحضار ذہنی ہے، جیسا کہ شاہ روم ہرقل نے حضرت ابو سفیان ؓ سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوال کیے تھے تو وہاں بھی ’’ھذا الرجل‘‘ کے الفاظ استعمال کیے تھے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ وہاں موجود نہ تھے صرف استحضار ذہنی کے پیش نظریہ اسلوب اختیار کیا گیا۔