تشریح:
(1) محرم کے لیے غسل جنابت تو بالاتفاق جائز ہے، البتہ غسل نظافت میں اختلاف ہے۔ امام بخاری ؒ نے عنوان سے امام مالک کے موقف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وہ محرم کے لیے پانی میں ڈبکی لگانے کو مکروہ خیال کرتے تھے۔ مؤطا میں حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق روایت ہے کہ وہ حالت احرام میں اپنا سر نہیں دھوتے تھے، البتہ غسل جنابت ضرور کرتے تھے۔ (الموطأ للإمام مالك، الحج:298/1) (2) حضرت ابن عباس ؓ کے پاس اس مسئلے کے متعلق نص موجود تھی، اس لیے انہوں نے عبداللہ بن حنین کو حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے پاس بھیجا کہ وہ محرم کے لیے سر دھونے کا طریقہ معلوم کرے۔ سر کے متعلق اس لیے سوال کیا کہ محل اختلاف سر ہی ہے کیونکہ اس کے دھونے سے بال وغیرہ اکھڑنے کا اندیشہ ہے۔ جب انہوں نے حضرت ابو ایوب ؓ کو سر دھوتے دیکھا تو واپس جا کر حقیقت حال سے آگاہ کیا۔ اس کے بعد حضرت مسور ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہا: آئندہ میں آپ سے کسی مسئلے میں نہیں الجھوں گا۔ (3) اس سے معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام ؓ اختلاف کے وقت حق کی طرف رجوع کرتے تھے۔ (فتح الباري:74/4) (4) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محرم آدمی غسل کر سکتا ہے اور اپنے بال بھی دھو سکتا ہے۔ جمہور علماء کا یہی موقف ہے۔