تشریح:
(1) احرام کی حالت میں تہبند کا ہونا اور پاؤں میں جوتا ہونا ہی مناسب ہے کیونکہ حج میں اللہ تعالیٰ کو یہی فقیرانہ ادا پسند ہے لیکن اگر کسی کو یہ چیزیں میسر نہ ہوں تو بوقت مجبوری پاجامہ، شلوار اور موزے بھی پہن سکتا ہے کیونکہ اسلام میں قدم قدم پر آسانیوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ شلوار پہننے کی اجازت اس صورت میں ہے جب ازار حاصل کرنے کی پوری کوشش کرے اور اسے حاصل نہ کر سکے۔ اس کے پاس اگر قیمت ہے تو اسے خرید لے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو شلوار یا پاجامہ پہن لے لیکن کیا اسے موزے کی طرح کاٹنا ضروری ہے؟ جمہور علماء تو اسے کاٹ کر پہننے کی اجازت دیتے ہیں۔ کاٹے بغیر پہن لینے والے کو فدیہ دینا ہو گا۔ امام احمد نے اس حدیث کے ظاہر پر عمل کرتے ہوئے فتویٰ دیا ہے کہ شلوار کو کاٹنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اسے کاٹنے کا فتویٰ محض قیاس پر مبنی ہے۔ (2) عرب کے ہاں تنورہ پہننے کا رواج ہے، یعنی چادر کے دونوں کناروں کو سینے کے بعد اوپر لاسٹک لگا دی جاتی ہے تاکہ وہ کھل نہ سکے۔ ایسا کرنا جائز ہے کیونکہ محرم کے لیے ایسا سلا ہوا لباس منع ہے جو اعضاء کے مطابق کاٹ کر تیار کیا گیا ہو اور اسے معمول کے مطابق پہنا جاتا ہو۔ اس سے مراد ہر وہ چیز نہیں جس پر سلائی کا عمل ہوا ہو، لہذا اگر انسان احرام کے لیے پیوند لگی چادریں استعمال کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں اگرچہ پیوند کاری کے لیے سلائی کی گئی ہو۔ بوقت مجبوری اس قسم کی سلائی والا کپڑا بھی پہنا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم