تشریح:
1۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک مرتبہ اپنی پیشانی اور پگڑی پر مسح فرمایا۔ ( صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 636(274) ناصیہ سر کا وہ حصہ ہے جس کے بالوں کا رخ پیشانی کی طرف ہو۔ اس روایت کی بنیاد پر بعض فقہاء نے چوتھائی سر کے مسح کو فرض قراردیا ہے، امام بخاری ؒ کا موقف ان کے خلاف ہے۔ قرآن مجید میں سر پر مسح کرنے کا ذکر ہے، لیکن اس کی مقدار کے متعلق اجمال تھا جس کی وضاحت حضرت عبد اللہ بن زید ؓ سے مروی حدیث میں مذکور ہے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کی روایت میں اگرچہ ناصیہ پر مسح کرنے کا ذکر ہے لیکن حدیث کے مطابق یہ اس صورت میں ہے جب سر پر پگڑی ہو۔ جتنا حصہ سر کا ننگا ہے اس پر مسح کر کے باقی پگڑی پر کر لیا جائے۔ اس طرح احادیث میں کوئی ٹکراؤ کی صورت پیدا نہیں ہوتی کیونکہ جب پگڑی نہیں ہو گی تو تمام سر کا مسح کرنا ہو گا۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن زید ؓ سے مروی حدیث میں بیان ہوا ہے جو فقہاء آیت کریمہ میں ’’ب‘‘ کو زائد یا تبعیضیہ قرار دیتے ہیں ان کا موقف بھی درست نہیں، بلکہ یہ ’’ب‘‘ اِلصاق کے معنی میں مستعمل ہے۔
2۔ حدیث میں (فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ) سے مقصود مسح کی کیفیت بیان کرنا ہے اور یہ دو حرکتیں ہیں جن سے مسح کی تکمیل ہوتی ہے، دوبارمسح کرنا نہیں کیونکہ اس روایت میں (اِقبال و اِدبار) کے ساتھ (مرة واحدة) کے الفاظ بھی مروی ہیں (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 186) اس سے معلوم ہوا کہ اقبال وادبار کے ساتھ بھی مسح کو ایک ہی بار سمجھا جاتا تھا۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے سامنے کے حصے سے مسح کرتے ہوئے گدی تک دونوں ہاتھ پہنچائے پھر ادھر سے مسح کرتے ہوئے سامنے تک آ جائے تاکہ پوری طرح سارے سر کا مسح ہو جائے۔ ویسے اقبال کے لغوی معنی اگلی طرف آنا اور ادبار کے پچھلی طرف جانا ہیں، لیکن یہ معنی روایت مذکور میں مقصود نہیں کیونکہ اس سے صورت برعکس ہو جاتی ہے جو غیر مقصود ہے۔ در حقیقت راوی نے یہاں ترتیب کی رعایت نہیں کی اور نہ واؤ عطف میں ترتیب ہی ہوتی ہے لیکن صحیح بخاری ہی کی دوسری روایت میں (فَاَدبَرَ بِيَدِهِ وَاَقبَلَ) بھی ہے۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 199) وہ صحیح صورت واقعہ کا نقشہ پیش کرتی ہے اور لغوی معنی کے بھی مطابق ہے لیکن اگر (أَقْبَلَ) کے معنی کر لیے جائیں سر کے اگلے حصے سے مسح شروع کیا (أَدْبَرَ) اور(پھر) پیچھے سے ہاتھ آگے لائے تو اس صورت میں ان کا مطلب بھی صحیح واضح ہو جاتا ہے۔ واللہ أعلم
3۔ حضرت عبد اللہ بن زید ؓ سے وضو کے متعلق سوال کرنے والے عمرو بن ابی حسن ہیں، جیسا کہ خود امام بخاری ؒ نے اگلے باب میں اس کی وضاحت فرمائی ہے جو عمرو بن یحییٰ کے داداہیں جس کی صراحت خود روایت میں موجود ہے مؤطا امام مالک ؒ میں سائل کی تعیین کے متعلق مختلف روایات ہیں جمع کی صورت یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن زید ؓ کے پاس تین شخص تھے ایک ابو حسن انصاری دوسرے ان کے بیٹے عمرو بن ابی حسن اور تیسرے ان کے پوتے یحییٰ بن عمارہ بن ابی حسن یہ تینوں حضرات وضوئے نبوی معلوم کرنے کے لیے حضرت عبد اللہ بن زیدؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس کے متعلق سوال عمرو بن ابی حسن نے کیا، اب جہاں سوال کی نسبت عمرو بن ابی حسن کی طرف کی گئی ہے تو یہ حقیقت پر مبنی ہے لیکن جہاں ان کے والد ابو حسن یا ان کے بھتیجے یحییٰ بن عمارہ کی طرف کی گئی ہے وہاں مجاز پر محمول ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ سائل عمرو بن ابی حسن ہیں اور یہ یحییٰ بن عمارہ کے حقیقی چچا اور عمرو بن یحییٰ کے عم الاب ہونے کی حیثیت سے عمرو بن یحییٰ کے مجازی دادا ہیں، اس وضاحت کا مقصد یہ ہے کہ بعض حضرات نے عبارت میں (هُوَ) ضمیر کو عبد اللہ بن زید ؓ کی طرف راجع کیا ہے جو درست نہیں کیونکہ عبد اللہ بن زید حقیقی یا مجازی کسی بھی اعتبار سے عمرو بن یحییٰ کے دادا نہیں ہیں۔ ( فتح الباري:380/1)