تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ وضو کرتے وقت پاؤں دھونے کا مسئلہ دو مرتبہ بیان کر چکے ہیں (1)۔ دونوں پاؤں دھونے چاہییں، قدموں پر مسح نہیں کرنا چاہیے دیکھیے (باب 27) (2)۔ جوتوں پر مسح کرنے کے بجائے انھیں پہنے ہوئے پاؤں دھونا، دیکھیے(باب 30) اگر اس کے ساتھ ’’ایڑیاں دھونا‘‘ کے عنوان کو شامل کر لیا جائے تو گویا آپ اس مسئلے کو تین مرتبہ بیان کرچکے ہیں۔ اب صرف آیت کریمہ کی ترتیب کے اعتبار سے اس مسئلے کو یہاں بیان کر رہے ہیں، لیکن تکرار سے بچنے کے لیے اس عنوان کو ’’ ٹخنوں تک‘‘ کی قید سے مقید کردیا تاکہ دوسرے تراجم سے ممتاز ہو جائے۔
2۔ بعض شارحین نے اس عنوان کو سابق عنوان کا تکملہ قراردیا ہے کہ امام بخاری ؒ اس سے بھی مکمل سر کا مسح ثابت کر رہے ہیں کہ جب (رِجلَين) جو اعضائے وضو سے ہیں مکمل دھوئے جاتے ہیں تو مسح بھی سارے سر کا ہونا چاہیے۔ وہ اس طرح کہ پاؤں کو ٹخنوں تک دھونا ثابت ہے اور سر کے ٹخنے کان ہیں، ان کے سمیت سر کا مسح کرنا ہوگا کیونکہ سنن کی جن روایات میں کانوں کو سر میں شامل کیا گیا ہے وہ روایات امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق نہ تھیں، اس لطیف اسلوب سے آپ نے ان روایات کی طرف اشارہ کیا ہے۔
3۔ اس سلسلے میں امام بخاری ؒ ایک اور تنبیہ کرنا چاہتے ہیں کہ قران کریم میں پاؤں دھونے کی حد مقرر کی گئی ہے، یعنی انھیں ٹخنوں تک دھویا جائے۔ (أَرْجُلَكُمْ) کو منصوب پڑھیں یا مجرور دونوں صورتوں میں پاؤں کا دھونا متعین ہے کیوں کہ لفظ ’’إلى‘‘ تحدید کے لیے ہے اور مسح میں تحدید کا کوئی بھی قائل نہیں، لہذا جو لوگ اسے مجرور پڑھنے کی صورت میں پاؤں پر مسح کرنے کے متعلق کہتے ہیں وہ درست نہیں ہے، نیز عربی زبان میں مسح کا لفظ دھونے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، اگر اسے مسح کے تحت بھی مان لیا جائے تو بھی انھیں دھونے ہی سے شارع علیہ السلام کا مقصد پورا ہو گا، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا عمل مبارک انھیں دھونے ہی کا ہے، خواہ اسے منصوب پڑھیں یا مجرور۔
4۔ پاؤں پر مسح صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے جب موزے پہنے ہوئے ہوں۔ رسول اللہ ﷺ سے ایسی حالت میں مسح کرنا ثابت ہے، لیکن پاؤں ننگے ہونے کی صورت میں دھونے کے علاوہ اور کوئی صورت متعین نہیں۔ پھر پاؤں کو دھونے سے مسح کا عمل خود بخود ادا ہو جاتا ہے، لیکن اس کے برعکس مسح کرنے سے غسل کا عمل بھی ادا ہو جائے، اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔
5۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ ایک ہی چلو سے کلی اور ناک میں پانی ڈالا جا سکتا ہے، نیز سر کا مسح صرف ایک مرتبہ کرنا ہے، اس میں تکرار نہیں ہے۔ (صحیح البخاري، الوضو ء، حدیث:191۔192)
6۔ رسول اللہ ﷺ کے وضو کے متعلق مختلف روایات کتب حدیث میں مروی ہیں ان میں کوئی تضاد نہیں بلکہ جس کا جو مشاہدہ تھا اس نے بیان کردیا۔ مقصد یہ ہے کہ ان تمام طریقوں سے وضو ہو سکتا ہے۔ اعضاء کا ایک ایک، دو دو یا تین تین مرتبہ دھونا بیان جواز کے لیے ہے، کہنیاں اور ٹخنے بھی دھونے کے عمل میں شامل ہیں۔ کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی کلائیاں دھوئیں تا آنکہ اپنے بازؤں کو دھونے لگے، نیز آپ نے اپنے پاؤں دھوئے تاآنکہ پنڈلی کو دھونا شروع کیا۔ ( صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 579۔(246)) اس سے صراحت کے ساتھ معلوم ہوا کہ ٹخنے اور کہنیاں دھونے کے عمل میں شامل ہیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ ’’إلیٰ‘‘ بمعنی ’’مع‘‘ ہے۔ ( فتح الباري:382/1)