باب : محرم کو جب جوتیاں نہ ملیں تو وہ موزے پہن سکتا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Penalty of Hunting while on Pilgrimage
(Chapter: Wearing of Khuff by a Muhrim if slippers are not available)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1860.
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: محرم آدمی کون سے کپڑےپہنے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’وہ قمیص، عمامہ، شلوار اور ٹوپی نہ پہنے اور نہ وہ کپڑاہی پہنے جسے زعفران اور ورس لگی ہوئی ہو۔ اگرجوتا نہ پائے تو موزے پہن لے لیکن انھیں کاٹ کر ٹخنوں سے نیچے کرے۔‘‘۷
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ موزے پہننے کی اس وقت اجازت ہے جب اسے جوتا نہ ملے۔ عدم وجدان سے مراد یہ ہے کہ ان کے حاصل کرنے پر قدرت نہ ہو۔ اس کی تین صورتیں ہیں: ان کا نہ ملنا، قیمت کا نہ ہونا اور قیمت کا گراں ہونا۔ ایسے حالات میں موزے پہنے جا سکتے ہیں لیکن یہ اجازت مشروط ہے کہ انہیں کاٹ کر ٹخنوں سے نیچے کر لیا جائے۔ پہلی حدیث میں انہیں کاٹنے کا ذکر نہیں ہے۔ اس اطلاق کو دوسری حدیث سے مقید کیا جائے گا جبکہ بعض ائمہ انہیں کاٹنا ضروری خیال نہیں کرتے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1790
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1842
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1842
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1842
تمہید کتاب
احرام پہننے کے بعد انسان جب حج یا عمرے کی نیت کرتا ہے تو اسے محرم کہتے ہیں۔ اس محرم پر احرام اور حرم کے حوالے سے کچھ پابندیاں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اور عمرے کے مسائل و احکام اور آداب و شرائط بیان کرنے کے بعد احرام اور حرم کی پابندیاں بیان کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو اپنا مقدس گھر قرار دیا ہے، اسی طرح شہر مکہ کو جس میں یہ گھر بیت اللہ واقع ہے، بلد اللہ الحرام قرار دیا ہے۔ گویا دنیا بھر کے گھروں میں جس طرح کعبہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت ہے اسی طرح دنیا بھر کے شہروں میں مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت کا شرف حاصل ہے، پھر اس نسبت سے اس کی سمت میں کئی کئی میل کے علاقے کو حرم، یعنی واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاص آداب و احکام مقرر کیے گئے ہیں۔ اس ادب و احترام کے حوالے سے بہت سے کاموں اور باتوں کی وہاں ممانعت ہے جن کی باقی ساری دنیا میں اجازت ہے، مثلا: ان حدود میں کسی جانور کا شکار کرنے کی اجازت نہیں۔ درخت کاٹنے اور پتے چھاڑنے کی اجازت نہیں۔ اس محترم علاقے میں ان سب چیزوں کو ادب و احترام کے خلاف گناہ گارانہ جسارت قرار دیا گیا ہے۔ گویا پورے علاقۂ حرم کی تعظیم و حرمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق اور سچی وفاداری کی علامت ہے۔ اسی طرح بیت اللہ میں حاضری کے لیے فقیرانہ لباس، احرام سے متعلق بھی کچھ پابندیاں ہیں جو اسے پہنتے وقت عائد ہو جاتی ہیں، خواہ وہ حدود حرم میں داخل نہ ہوا ہو، جن میں سے ایک شکار کرنے کی ممانعت بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّـهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّـهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٩٤﴾) "اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ ایسے شکار کے ذریعے سے تمہاری آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوں، یہ دیکھنے کے لیے کہ کون غائبانہ طور پر اللہ سے ڈرتا ہے، پھر اس کے بعد جو حد سے گزر گیا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔" (المآئدۃ94:5) اس کے بعد اس پابندی کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ ایمان والو! تم حالت احرام میں شکار نہ کرو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے احرام اور حرم کی پابندیوں کو بیان کرنے کے لیے چھیالیس مرفوع متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر ان پر پابندیوں کے حوالے سے ستائیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پابندیاں دو حصوں پر مشتمل ہیں: (1) احرام کی پابندیاں: ان میں میدانی شکار کی ممانعت سرفہرست ہے۔ اس حوالے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ تفصیل بیان کی ہے جسے ہم جستہ جستہ بیان کریں گے۔ (2) حرم کی پابندیاں: ان میں حرم کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ حرم میں شکار کو خوفزدہ نہ کیا جائے، وہاں جنگ و قتال اور لڑائی جھگڑا نہ کیا جائے۔کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں حدود حرم اور حالتِ احرام میں مارنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔ ان کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ عنوان کی مناسبت سے کچھ مسائل کا تذکرہ ہے جن کے متعلق معلومات حاصل کرنا ضروری تھا: مثلا: محرم اگر دوران احرام میں مر جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر کسی نے حج بیت اللہ کی نذر مانی ہے لیکن اسے پورا کیے بغیر مر گیا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ ایک آدمی پر حج فرض ہے لیکن وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ بچوں اور عورتوں کے حج کی کیا حیثیت ہے؟ اسی طرح جو ننگے پاؤں پیدل بیت اللہ جانے کی نذر مانتا ہے اسے کس حد تک نذر پوری کرنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے علاوہ دیگر اسنادی مباحث بھی بیان کی ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ان گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعہ کریں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: محرم آدمی کون سے کپڑےپہنے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’وہ قمیص، عمامہ، شلوار اور ٹوپی نہ پہنے اور نہ وہ کپڑاہی پہنے جسے زعفران اور ورس لگی ہوئی ہو۔ اگرجوتا نہ پائے تو موزے پہن لے لیکن انھیں کاٹ کر ٹخنوں سے نیچے کرے۔‘‘۷
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ موزے پہننے کی اس وقت اجازت ہے جب اسے جوتا نہ ملے۔ عدم وجدان سے مراد یہ ہے کہ ان کے حاصل کرنے پر قدرت نہ ہو۔ اس کی تین صورتیں ہیں: ان کا نہ ملنا، قیمت کا نہ ہونا اور قیمت کا گراں ہونا۔ ایسے حالات میں موزے پہنے جا سکتے ہیں لیکن یہ اجازت مشروط ہے کہ انہیں کاٹ کر ٹخنوں سے نیچے کر لیا جائے۔ پہلی حدیث میں انہیں کاٹنے کا ذکر نہیں ہے۔ اس اطلاق کو دوسری حدیث سے مقید کیا جائے گا جبکہ بعض ائمہ انہیں کاٹنا ضروری خیال نہیں کرتے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے سالم نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ رسول کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ محرم کون سے کپڑے پہن سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ قمیص، عمامہ، پاجامہ اور برنس (کن ٹوپ یا باران کوٹ ) نہ پہنے اور نہ کوئی ایسا کپڑا پہنے جس میں زعفران یا ورس لگی ہو اور اگر جوتیاں نہ ہوں تو موزے پہن لے، البتہ اس طرح کاٹ لے کہ ٹخنوں سے نیچے ہو جائیں۔
حدیث حاشیہ:
ان جملہ لباس کو چھوڑ کر صرف سیدھی سادھی دو سفید چادریں ہونی ضروری ہیں جن میں سے ایک تہبند ہو اور ایک کرتے کی جگہ ہو کیوں کہ حج میں اللہ پاک کو یہی فقیرانہ ادا پسند ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdullah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) was asked what sort of clothes a Muhrim should wear. He replied, "He should not wear a shirt, turbans, trousers, a hooded cloak, or a dress perfumed with saffron or Wars; and if slippers are not available he can wear Khuffs but he should cut them so that they reach below the ankles.