تشریح:
(1) اس حدیث میں مدینہ طیبہ کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ یہ دیگر شہروں کا پایۂ تخت اور دارالحکومت بن جائے گا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی یہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور مدینہ طیبہ ایک مدت تک ایران، توران، مصر اور شام کا دارالخلافہ رہا۔ اسلامی لشکروں کا مرکز رہا اور یہیں سے لشکر روانہ ہو کر فتوحات کرتے اور غنیمتیں لاتے۔ (2) منافقین اسے یثرب کہتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس نام کو پسند نہیں کیا کیونکہ یثرب کے معنی شرمندگی دلانا ہے اور یہ معنی مدینہ طیبہ کی شان کے خلاف ہیں کہ جو وہاں جائے اسے شرمندہ کیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ پسند کیا کہ اسے مدینہ کہا جائے۔ اس اطلاق میں رفعت شان ہے، یعنی مدینہ طیبہ کامل شہر ہے۔ (3) اس عنوان کا دوسرا جز ’’مدینہ طیبہ برے لوگوں کو نکال دے گا‘‘ اپنے عموم پر نہیں بلکہ وقت اور کچھ لوگوں کے ساتھ خاص ہے، چنانچہ قاضی عیاض نے لکھا ہے: یہ حدیث رسول اللہ ﷺکے زمانے کے ساتھ خاص ہے کیونکہ ہجرت اور مدینہ میں اقامت پر وہی صبر کرتا تھا جو کامل الایمان ہوتا۔ اس پر وہ حدیث دلالت کرتی ہے جس میں ایک اعرابی کے بیعت واپس لینے کے مطالبے کا ذکر ہے۔ امام نووی ؒ نے لکھا ہے: اس حدیث کا مصداق دجال کے وقت ہو گا جب مدینہ سے بہت سے منافقین نکل کر دجال سے مل جائیں گے۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: احادیث کے اعتبار سے دونوں زمانے مراد لیے جا سکتے ہیں، نیز یہ ضروری نہیں کہ مدینے سے تمام شریر لوگ نکل جائیں گے بلکہ مطلب یہ ہے کہ مدینہ طیبہ مسلسل ان کی چھانٹی کرتا رہے گا اگرچہ کچھ اس میں رہ بھی جائیں گے جیسا کہ قرآن میں ہے: ﴿وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ﴾ ’’اہل مدینہ میں کچھ ایسے بھی ہیں جو ابھی تک نفاق پر اڑے ہوئے ہیں۔‘‘ (التوبة:101:9) یہ بھی ضروری نہیں کہ مدینے سے جانے والے سب شریر ہوں گے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت معاذ، ابو عبیدہ، ابن مسعود، حضرت طلحہ، زبیر اور حضرت عمار ؓ نے مدینہ طیبہ چھوڑ کر دوسرے شہروں میں اقامت اختیار کر لی تھی، حالانکہ یہ لوگ دینی اعتبار سے افضل تھے۔ (فتح الباري:114/4)